ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے ایک گروپ کے تعلق رکھنے والے مذاکرات کاروں نے منگل کے روز بات چیت کا ایک اور دور جاری رکھا، ایسے میں جب ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے بارے میں سمجھوتا طے کرنے کی ڈیڈلائن قریب ہے۔
اومان میں ہونے والے اس اجلاس سے قبل، ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف؛ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور یورپی یونین کی ایلچی، کیتھرین ایشٹن دو روز تک بات چیت کر چکے ہیں، جو پیش رفت کے اعتبار سے بے نتیجہ ثابت ہوئی۔
دونوں فریق تقریباً ایک سال سے ایک مربوط، دیرپہ سمجھوتا طے کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں، جس سے قبل دونوں نے ابتدائی طور پر چھ ماہ کی مدت کو 24 نومبر تک بڑھا دیا تھا۔
امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی اس بات کے خواہاں ہیں کہ ایران اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ وہ جوہری تنصیبات کو ہتھیار بنانے کے لیے استعمال نہیں کرے گا، جب کہ ایران چاہتا ہے کہ اُس پر لگائی جانے والی تمام کی تمام معاشی تعزیرات واپس لی جائیں۔
ایک اور خبر کے مطابق، روس اور ایران نے بوشہر میں قائم ایران کے ایٹمی پلانٹ کے لیے مزید دو جوہری ری ایکٹر تعمیر کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے، جو روس ہی نے تعمیر کیا تھا۔ اس سلسلے میں، دونوں ملکوں کے اہل کاروں نے ماسکو میں ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس میں ممکنہ طور پر ایران میں متعدد دیگر نیوکلیئر ری ایکٹر کی تعمیر بھی شامل ہے۔
سمجھوتے کے تحت، اِن تنصیبات کی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کی طرف سے توثیق اور معائنہ درکار ہوگا۔