ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے، جو انڈونیشیا کے دو روزہ دورے پر ہیں، منگل کے روز اپنے انڈونیشی ہم منصب جوکو ویدودو سے ملاقات کی جس کا مقصد دو مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔
وڈوڈو نے دارالحکومت جکارتہ کے قریب واقع بوگور کے صدارتی محل میں رئیسی کا خیرمقدم کیا۔ رئیسی انڈونیشیا کا دورہ وڈوڈو کی دعوت پر دورہ کر رہے ہیں۔
انڈونیشیا کرونا وبا کے بعد اپنی معاشی سرگرمیاں تیز کرنے کے لیے برآمدات میں اضافے کی کوششیں کر رہا ہے۔
توقع ہے کہ اس دو روزہ دورے سے ایران کے انڈونیشیا کے ساتھ تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔ دونوں ممالک نے اس مہینے ایک تجارتی معاہدے پر مذاکرات کیے تھے، جس پر دستخط منگل کو دونوں رہنماؤں کی موجودگی میں کیے گئے۔ اس موقع پر مزید دس معاہدوں پر بھی دستخظ ہوئے۔
ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں صدر ودودو نے کہا کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ اور ایران میں برآمدات کے مواقع کو بڑھانے اور بورنیو جزیرے پر انڈونیشیا کے نئے دارالحکومت کی ترقی میں ایرانی کاروباری اداروں کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
رئیسی نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ دونوں ممالک اپنی دو طرفہ تجارت کو 20 ارب ڈالر تک لے جائیں گے۔
انڈونیشیا کی وزارت تجارت کے مطابق گزشتہ سال دو طرفہ تجارت میں 23 فیصد اضافہ کے بعد اس کا حجم ڈھائی ارب ڈالر سے زیادہ ہو گیا ہے۔
انڈونیشیا کا شمار جنوبی ایشیا کی ایک بڑی معیشت کے طور پر کیا جاتا ہے اور وہ اپنی برآمدات میں اضافے کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش میں ہے۔ ایران انڈونیشیا کے لیے ایک غیر روایتی تجارتی شراکت دار ہے۔
رئیسی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ان کے ملک نے کئی دہائیوں سے جاری پابندیوں کے باوجود اپنی معیشت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں قابل ذکر ترقی حاصل کی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج ہم نے جن دستایزات پر دستخط کیے ہیں ، اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہم پابندیوں اور دھمکیوں کے باوجود اپنے تعلقات کو فروغ دیں گے۔
دونوں رہنماؤں نے کہا کہ انہوں نے دنیا کے کئی حصوں میں بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تناؤ پر بھی تبادلہ خیال کیا اور فلسطینیوں کے لیے اپنی حمایت اور خواتین کی تعلیم اور افغانستان میں انسانی امداد جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
ایرانی صدر رئیسی انڈونیشیا کے اپنے دورے میں اہم شخصیات سے ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ جکارتہ کی استقلال گرینڈ مسجد کا بھی دورہ کریں گے جس کا شمار جنوبی ایشیا کی بڑی مساجد میں ہوتا ہے۔ وہ اسلامی یونیورسٹی میں لیکچر بھی دیں گے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)