رسائی کے لنکس

سرینگر میں جی 20 اجلاس کا دوسرا دن؛ کشمیر میں ترقی اور امن کے دعوے


بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جی 20 کا اجلاس سرینگر کے ڈل جھیل کے کنارے ایک آڈیٹوریم میں ہو رہا ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جی 20 کا اجلاس سرینگر کے ڈل جھیل کے کنارے ایک آڈیٹوریم میں ہو رہا ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جس میں ترقی اور امن کے لامحدود امکانات ہیں۔

منوج سنہا منگل کو سرینگر میں جاری جی 20 کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کے اجلاس کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ اس تقریب کو میں صرف سرکاری ٹی وی 'دور درشن' اور نجی نیوز ایجنسی اے این آئی کو کوریج کی اجازت دی گئی تھی۔

لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے منگل کو صحافیوں کو عصرانے پر مدعو کیا تھا لیکن آخری وقت پر کچھ صحافیوں کو بھیجے گیے دعوت نامے منسوخ کیے گئے اور ان کے میڈیا سے رابطے کو محدود کر دیا گیا۔

محکمۂ اطلاعات کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق اپنے خطاب میں منوج سنہا نے کہا کہ جمّوں و کشمیر میں کیے جانے والے اقدامات بھارت کے اس عزم کو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ علاقہ ملک کی دوسری ریاستوں اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں کی طرح ہی جمہوریت کے فوائد سے مستفید ہو۔

انہوں نے بھارتی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر میں پانچ اگست 2019 کو اٹھائے گئے اقدامات کے پسِ منظر میں کہا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ریاست میں پچھلی سات دہائیوں سے روا رکھی گئی نا انصافی، استحصال اور امتیاز کو مکمل طور پر ختم کر دیا جو اکثر بیرونِ ملک سے پیدا کیے گئے حالات کی دین تھے۔

لیفٹننٹ گورنر نے کہا کہ کشمیر کی انتظامیہ نے 2021 میں ایک نئی فلم پالیسی متعارف کرا کر علاقے میں فلم ٹورازم کا احیا کر دیا ہے۔ اس پالیسی کی وجہ سے کشمیر میں بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کے لیے دروازے کھل گئے ہیں۔

منوج سنہا کے مطابق 2022 میں جمّوں و کشمیر میں 300 سے زائد فلموں اور ڈراموں کی آؤٹ ڈور شوٹنگ کی گئی۔

جموں و کشمیر میں سیاحت کو فروغ دینے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے سینکڑوں نئے سیاحتی مقامات کا اضافہ کیا ہے اور 2022 میں ایک کروڑ 80 لاکھ سیاح یہاں سیر پر آئے تھے۔

جی 20 اجلاس کے دوسرے روز کیا ہوا؟

جی 20 اجلاس کے دوسرے دن کی تقریبات میں صحافیوں کو کیمرے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جی 20 میں کچھ اعلیٰ عہدے داروں نے صحافیوں سے گفتگو بھی کی لیکن اسے 'آف دی ریکارڈ' قرار دیا گیا۔

جی 20 اجلاس کے حوالے سے میڈیا کی سہولت کے لیے بنائے گئے واٹس ایپ گروپ میں منگل کو کچھ صحافی شکایات بھی کرتے نظر آئے کہ انہیں کوریج میں مشکلات پیش آ رہی ہیں جب کہ اجلاس کے پہلے دن یہ صورتِ حال نہیں تھی۔

چین کی جانب سے جی 20 کا بائیکاٹ

جی ٹوئنٹی میں شامل ممالک میں سے چین نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے جب کہ گروپ میں شامل سعودی عرب، ترکیہ، مصر اور انڈونیشیا بھی سرینگر میں ہونے والے اجلاس میں شریک نہیں ہو رہے ہیں۔

بھارت کے وزیرِ اعظم کے دفتر میں تعینات وزیرِ مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے منگل کو جی 20 میں بیجنگ کی عدم شرکت پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ اس سے بھارت کا نہیں بلکہ چین کا ہی نقصان ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چین کی عدم شرکت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

سرینگر: جی 20 کے اجلاس میں کون سے ملک شریک نہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:01 0:00

پاکستان کی مخالفت پر بھارت کا جواب

پاکستان سرینگر میں جی 20 اجلاس کی مخالفت کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے رہا ہے۔ بھارت کے وفاقی وزیرِ سیاحت و ثقافت جی کشن ریڈی نے منگل کو سرینگر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو جمّوں و کشمیر پر بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان کے بقول یہ بھارت کا حصہ ہے اور رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہاں جو بھی کرتے ہیں وہ مقامی لوگوں کے حق میں ہے۔ پاکستان کون ہوتا ہے اس پر بات کرنے والا؟ یہ ہماری زمین ہے اور ہمارے لوگ ہیں۔

کشن ریڈی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لوگ فاقہ کشی کا شکار ہیں اور بھوک سے مر رہے ہیں۔ اسلام آباد کو ان مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ جمّوں و کشمیر کے لوگ خوش اور خوش حال ہیں۔ وفاق ان کے لیے سب کچھ کر رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔

ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کے مطابق لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے بھی کشن ریڈی کے پاکستان سے متعلق بیان کی توثیق کی اور سرینگر میں جی 20 کے اجلاس کی مخالفت کو مسترد کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر اب ہڑتالوں، اسکولوں کے بند رہنے اور علحیدگی پسندوں کی سرگرمیوں کی سر زمین نہیں ہے۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کو بڑی حد تک کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جمّوں و کشمیر میں اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصرین کی موجودگی بھارت کو یہ اجازت دیتی ہے کہ وہ یہاں بین الاقوامی تقریبات کا اہتمام کرے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG