واشنگٹن —
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس سال کے آغاز سے اب تک عراق کے تنازع کے باعث 10 لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں، ایسے میں جب اس وقت بیجی میں تیل کی ایک اہم رفائنری پر قبضے کے لیے عراقی فوج اور باغیوں کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
یہ بات اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کے ترجمان، آندریا ایڈورڈس نے جمعے کے دِن جنیوا میں بتائی۔
بقول اُن کے، عراق میں نقل مکانی کے معاملے میں ہمارے سامنے 10 لاکھ کا عدد ہے، جس سے انبار کے علاقے میں ہونے والی نقل مکانی کی نشاندہی ہوتی ہے، جو اس سال پہلی چھ ماہی کی صورت حال ہے۔ مزید یہ کہ موصل اور دیگر علاقوں سے تازہ ترین ترک وطن جس میں لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزیں شامل ہیں، ایک الگ معاملہ ہے۔
بغداد سے تقریباً 250 کلومیٹر شمال میں واقع وسیع، بیجی رفائنری پر کنٹرول کے حصول کی لڑائی منگل کو شروع ہوئی، جس میں اب شدت آگئی ہے۔
رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ دونوں فریق تنصیب کے کچھ حصوں پر قابض ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’دولت اسلامیہ عراق ولشام‘، اور لیواں کے جنگجو کیمیائی ہتھیاروں کی ایک تنصیب پر قابض ہوگئے ہیں، جو کسی وقت عراقی لیڈر، صدام حسین کی سرپرستی میں ہوا کرتی تھی۔
خاتون ترجمان، جین ساکی نے جمعرات کو کہا کہ امریکہ کو ’اِس تنصیب پر آئی ایس آئی ایل کے قبضے پر تشویش ہے‘۔ لیکن، امکان یہ ہے کہ اِس تنصیب میں فوجی نوعیت کے کیمیائی ہتھیار موجود نہیں ہیں۔ اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ ، ’اِس مواد کو حفاظت کے ساتھ منتقل کرنا، اگر ناممکن نہ سہی، تو بہت ہی مشکل ضرور ہوگا‘۔
امریکی صدر براک اوباما نے جمعرات کے روز کہا کہ وہ مزید آلات اور 300تک امریکی مشیر عراق روانہ کرنے پر تیار ہیں، جنھوں نے ملک کے زیادہ تر حصے پہلے ہی اپنے قبضے میں لے لیے ہیں۔
وائٹ ہاؤس سے اپنے خطاب میں، مسٹر اوباما نے کہا کہ 2003ء میں عراق میں شروع ہونے والی جنگ نے ’بڑے داغ‘ چھوڑے ہیں۔ اُنھوں نے امریکی فوج دوبارہ عراق بھیجنے کے امکان کو رد کیا۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ وہ اس بات پر تیار ہیں کہ اگر ضرورت پڑی تو ’اہداف‘ متعین کرکے فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے، جس سے سنی شدت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائی کے امکان کا اندازہ ہوتا ہے۔
مسٹر اوباما امریکی اتحادیوں سے بات چیت کرنے کے لیے وزیر خارجہ جان کیری کو مشرق وسطیٰ اور یورپ روانہ کر رہے ہیں۔
کیری نے آئی ایس آئی ایل کو علاقے میں سب کے لیے خطرناک قرار دیا۔ لیکن، کہا کہ عراقی بحران کا کوئی ایک فوجی جواب نہیں۔
اُنھوں نے جتنا جلد ممکن ہو ایک اتحادی حکومت تشکیل دی جائے، جو اقدام معاملے کے حل کی طرف ایک بہت بڑی پیش رفت ہوگی۔
یہ بات اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کے ترجمان، آندریا ایڈورڈس نے جمعے کے دِن جنیوا میں بتائی۔
بقول اُن کے، عراق میں نقل مکانی کے معاملے میں ہمارے سامنے 10 لاکھ کا عدد ہے، جس سے انبار کے علاقے میں ہونے والی نقل مکانی کی نشاندہی ہوتی ہے، جو اس سال پہلی چھ ماہی کی صورت حال ہے۔ مزید یہ کہ موصل اور دیگر علاقوں سے تازہ ترین ترک وطن جس میں لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزیں شامل ہیں، ایک الگ معاملہ ہے۔
بغداد سے تقریباً 250 کلومیٹر شمال میں واقع وسیع، بیجی رفائنری پر کنٹرول کے حصول کی لڑائی منگل کو شروع ہوئی، جس میں اب شدت آگئی ہے۔
رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ دونوں فریق تنصیب کے کچھ حصوں پر قابض ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’دولت اسلامیہ عراق ولشام‘، اور لیواں کے جنگجو کیمیائی ہتھیاروں کی ایک تنصیب پر قابض ہوگئے ہیں، جو کسی وقت عراقی لیڈر، صدام حسین کی سرپرستی میں ہوا کرتی تھی۔
خاتون ترجمان، جین ساکی نے جمعرات کو کہا کہ امریکہ کو ’اِس تنصیب پر آئی ایس آئی ایل کے قبضے پر تشویش ہے‘۔ لیکن، امکان یہ ہے کہ اِس تنصیب میں فوجی نوعیت کے کیمیائی ہتھیار موجود نہیں ہیں۔ اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ ، ’اِس مواد کو حفاظت کے ساتھ منتقل کرنا، اگر ناممکن نہ سہی، تو بہت ہی مشکل ضرور ہوگا‘۔
امریکی صدر براک اوباما نے جمعرات کے روز کہا کہ وہ مزید آلات اور 300تک امریکی مشیر عراق روانہ کرنے پر تیار ہیں، جنھوں نے ملک کے زیادہ تر حصے پہلے ہی اپنے قبضے میں لے لیے ہیں۔
وائٹ ہاؤس سے اپنے خطاب میں، مسٹر اوباما نے کہا کہ 2003ء میں عراق میں شروع ہونے والی جنگ نے ’بڑے داغ‘ چھوڑے ہیں۔ اُنھوں نے امریکی فوج دوبارہ عراق بھیجنے کے امکان کو رد کیا۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ وہ اس بات پر تیار ہیں کہ اگر ضرورت پڑی تو ’اہداف‘ متعین کرکے فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے، جس سے سنی شدت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائی کے امکان کا اندازہ ہوتا ہے۔
مسٹر اوباما امریکی اتحادیوں سے بات چیت کرنے کے لیے وزیر خارجہ جان کیری کو مشرق وسطیٰ اور یورپ روانہ کر رہے ہیں۔
کیری نے آئی ایس آئی ایل کو علاقے میں سب کے لیے خطرناک قرار دیا۔ لیکن، کہا کہ عراقی بحران کا کوئی ایک فوجی جواب نہیں۔
اُنھوں نے جتنا جلد ممکن ہو ایک اتحادی حکومت تشکیل دی جائے، جو اقدام معاملے کے حل کی طرف ایک بہت بڑی پیش رفت ہوگی۔