واشنگٹن —
عراقی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ پیرکو رات گئے شدت پسندو ں نےبعقوبہ شہر کےایک قیدخانے پر حملہ کیا، جس واقع میں کم از کم 44 قیدی ہلاک ہوئے۔
یہ خبر منگل کو سامنے آئی ہے۔ تاہم، متضاد اطلاعات موصول ہو رہی ہیں آیا إِن قیدیوں کو شدت پسندوں یا سکیورٹی حکام نے ہلاک کیا۔ مردہ خانے کی اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ فوت ہونے والوں کو قریب سے سر اور سینے میں گولیاں ماری گئی تھیں۔
فرانسسی خبر رساں ادارے نے وزیر اعظم نوری الماکی کے سلامتی سے متعلق ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ حملہ کرکے باغیوں نے قیدیوں کو ہلاک کیا۔
اس سے قبل، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے عراقی وزیر اعظم پر بات چیت کی ابتدا کرنے اور اپنی حکومت میں ہر طبقے کے لوگوں کو نمائندگی دینے پر زور دیا، ایسے میں جب سنی عسکریت پسندوں کی طرف سے تشدد کی کارروائیاں انتہا پر ہیں اور وہ متعدد عراقی شہروں کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں۔
مسٹر بان نے منگل کے روز جنیوا میں نامہ نگاروں سے باتیں کی ہیں، ایسے میں جب دولت اسلامیہ العراق ولشام اور بحیرہ روم کے علاقوں کے عسکریت پسند دھڑوں نے عراق کے دارالحکومت بغداد میں حملے کی دھمکی دے رکھی ہے۔
امریکہ نے عراق فوج بھیجنے کے امکان کو رد کیا ہے۔ تاہم، صدر براک اوباما نے بغداد میں امریکی سفارت خانے کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے 275فوجی اہل کار روانہ کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
عراق کی مدد کرنے کے حوالے سے، صدر آپشنز پر بھی غور کر رہے ہیں، جن میں شدت پسندوں کے خلاف فضائی حملے بھی شامل ہیں۔
امریکہ ایران کے ساتھ کام کرنے پر غور کر رہا ہے۔ لیکن، پینٹاگان نے کہا ہے کہ عراق میں کسی کارروائی کے سلسلے میں ایرانیوں کے ساتھ فوجی تعاون کا کوئی ارادہ نہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ اہل کار کا کہنا ہے کہ پیر کے روز ویانا میں جوہری مذاکرات کے اجلاس سے باہر امریکی اور ایرانی سفارت کاروں کی ایک مختصر ملاقات ہوئی۔
اہل کار نے بتایا ہے کہ ایرانیوں کے ساتھ بات چیت میں کسی طور پر بھی فوجی رابطے سے متعلق کوئی بات شامل نہیں ہوگی۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ’یاہو نیوز‘ کو بتایا کہ اس سے پہلے کہ امریکہ کوئی فیصلہ کرے، پہلے ایرانیوں کو عراقی یکجہتی اور اقتدار اعلیٰ کی حرمت برقرار رکھنے کے عزم پر رضامند ہونا ہوگا۔
امریکی محکمہٴخارجہ کی خاتون ترجمان، جین ساکی نے کہا ہے کہ یہ محض عراقی حکومت کے لیے ایک فوجی چیلنج نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ عراقی رہنماؤں کو چاہیئے کہ وہ غیر فرقہ وارانہ انداز سے حکمرانی کے فرائض انجام دیں، اور شیعہ، سنی اور کرد برادریوں کی جائز شکایات پر غور کریں۔
اس سے قبل آنے والی اطلاعات کے مطابق، عراق میں منگل کو شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تازہ جھڑپ میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے جب کہ اس لڑائی کے باعث ملک کی مرکزی ’آئل ریفائنری‘ بند کر دی گئی۔
دولت اسلامیہ العراق والشام (آئی ایس آئی ایل) کے جنگجوؤں نے گزشتہ ہفتے موصل پر قبضہ کر لیا تھا اور دارالحکومت بغداد کی جانب پیش قدمی جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
اُدھر عہدیداروں نے بغداد کے شمال میں تیل کی سب سے بڑی ’بیجی آئل ریفائنری‘ بند کرنے اور وہاں کام کرنے والے غیر ملکی عملے کو علاقے سے نکالنے کی تصدیق کی۔
موجودہ صورت حال کے تناظر میں امریکہ کے صدر براک اوباما نے عراق میں امریکی سفارت خانے اور وہاں تعینات عملے کے افراد کی حفاظت کے لیے 275 اہلکاروں پر مشتمل لڑاکا فوجی دستہ عراق بھیجنے کی منظوری دی ہے۔
اس سے قبل امریکہ نے اپنے ایک طیارہ بردار بحری بیڑے کو خلیج جانے کا حکم دیا ہے۔
یہ خبر منگل کو سامنے آئی ہے۔ تاہم، متضاد اطلاعات موصول ہو رہی ہیں آیا إِن قیدیوں کو شدت پسندوں یا سکیورٹی حکام نے ہلاک کیا۔ مردہ خانے کی اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ فوت ہونے والوں کو قریب سے سر اور سینے میں گولیاں ماری گئی تھیں۔
فرانسسی خبر رساں ادارے نے وزیر اعظم نوری الماکی کے سلامتی سے متعلق ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ حملہ کرکے باغیوں نے قیدیوں کو ہلاک کیا۔
اس سے قبل، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے عراقی وزیر اعظم پر بات چیت کی ابتدا کرنے اور اپنی حکومت میں ہر طبقے کے لوگوں کو نمائندگی دینے پر زور دیا، ایسے میں جب سنی عسکریت پسندوں کی طرف سے تشدد کی کارروائیاں انتہا پر ہیں اور وہ متعدد عراقی شہروں کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں۔
مسٹر بان نے منگل کے روز جنیوا میں نامہ نگاروں سے باتیں کی ہیں، ایسے میں جب دولت اسلامیہ العراق ولشام اور بحیرہ روم کے علاقوں کے عسکریت پسند دھڑوں نے عراق کے دارالحکومت بغداد میں حملے کی دھمکی دے رکھی ہے۔
امریکہ نے عراق فوج بھیجنے کے امکان کو رد کیا ہے۔ تاہم، صدر براک اوباما نے بغداد میں امریکی سفارت خانے کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے 275فوجی اہل کار روانہ کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
عراق کی مدد کرنے کے حوالے سے، صدر آپشنز پر بھی غور کر رہے ہیں، جن میں شدت پسندوں کے خلاف فضائی حملے بھی شامل ہیں۔
امریکہ ایران کے ساتھ کام کرنے پر غور کر رہا ہے۔ لیکن، پینٹاگان نے کہا ہے کہ عراق میں کسی کارروائی کے سلسلے میں ایرانیوں کے ساتھ فوجی تعاون کا کوئی ارادہ نہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ اہل کار کا کہنا ہے کہ پیر کے روز ویانا میں جوہری مذاکرات کے اجلاس سے باہر امریکی اور ایرانی سفارت کاروں کی ایک مختصر ملاقات ہوئی۔
اہل کار نے بتایا ہے کہ ایرانیوں کے ساتھ بات چیت میں کسی طور پر بھی فوجی رابطے سے متعلق کوئی بات شامل نہیں ہوگی۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ’یاہو نیوز‘ کو بتایا کہ اس سے پہلے کہ امریکہ کوئی فیصلہ کرے، پہلے ایرانیوں کو عراقی یکجہتی اور اقتدار اعلیٰ کی حرمت برقرار رکھنے کے عزم پر رضامند ہونا ہوگا۔
امریکی محکمہٴخارجہ کی خاتون ترجمان، جین ساکی نے کہا ہے کہ یہ محض عراقی حکومت کے لیے ایک فوجی چیلنج نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ عراقی رہنماؤں کو چاہیئے کہ وہ غیر فرقہ وارانہ انداز سے حکمرانی کے فرائض انجام دیں، اور شیعہ، سنی اور کرد برادریوں کی جائز شکایات پر غور کریں۔
اس سے قبل آنے والی اطلاعات کے مطابق، عراق میں منگل کو شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تازہ جھڑپ میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے جب کہ اس لڑائی کے باعث ملک کی مرکزی ’آئل ریفائنری‘ بند کر دی گئی۔
دولت اسلامیہ العراق والشام (آئی ایس آئی ایل) کے جنگجوؤں نے گزشتہ ہفتے موصل پر قبضہ کر لیا تھا اور دارالحکومت بغداد کی جانب پیش قدمی جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
اُدھر عہدیداروں نے بغداد کے شمال میں تیل کی سب سے بڑی ’بیجی آئل ریفائنری‘ بند کرنے اور وہاں کام کرنے والے غیر ملکی عملے کو علاقے سے نکالنے کی تصدیق کی۔
موجودہ صورت حال کے تناظر میں امریکہ کے صدر براک اوباما نے عراق میں امریکی سفارت خانے اور وہاں تعینات عملے کے افراد کی حفاظت کے لیے 275 اہلکاروں پر مشتمل لڑاکا فوجی دستہ عراق بھیجنے کی منظوری دی ہے۔
اس سے قبل امریکہ نے اپنے ایک طیارہ بردار بحری بیڑے کو خلیج جانے کا حکم دیا ہے۔