عراق کی تیل کی آمدنی گزشتہ سال (2022) میں 115 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے ۔ وبائی مرض کرونا وائرس کے دوران قیمتیں گر جانے کے باعث تیل کی آمدنی میں ایک بڑی کمی کے بعد گزشتہ چار برسوں کے دوران آمدنی کی یہ بلند ترین سطح ہے۔
وزارت تیل کی طرف سے منگل کو ان ابتدائی اعدادوشمار کا اعلان کیا گیاہے۔ تیل کے وزیر حیان عبدالغنی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سال 2022 میں خام تیل کی برآمد سے کل آمدنی 115 بلین ڈالر سے زیادہ ہوئی۔
بیان کے مطابق، گزشتہ سال میں عراق نے 1.2 بلین بیرل سے زیادہ تیل برآمد کیا، جو اوسطاً 3.3 ملین بیرل یومیہ بنتا ہے۔
عراق کی حکومت کو حاصل ہونے والے کل محصولات میں تیل کی پیداوار کا حصہ تقریباً 90 فیصد ہے، اور پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک میں شامل عراق ، تیل پیدا کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔
فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اوپیک سے منسلک ملکوں سے مطالبہ کیا گیا کہ اپنے تیل کی پیداوار میں اضافہ کریں، لیکن رکن ملکوں کی جانب سے انکار کر دیا گیا۔
اکتوبر میں تیل پیدا کرنے والے اس گروپ نے ، عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے، پیداواری کوٹے میں2 ملین بیرل یومیہ کی کمی کا فیصلہ کیاتھا
عراق اپنے ریاستی اخراجات کے لیے زیادہ تر تیل کی آمدنی پر مکمل انحصار کرتا ہے اس لیے وبائی مرض کرونا وائرس کے آغاز پر تیل کی قیمتوں میں کمی سے اس کی معیشت کو بہت بڑا دھچکہ لگا تھا۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، 2019 میں عراق کی تیل کی آمدنی 78.5 ارب ڈالر تھی جو 2020 میں عالمی وبا کی وجہ سے کم ہو کر 42 ارب ڈالر رہ گئی۔لیکن 2021 تک اس میں دوبارہ اضافہ ہونا شروع ہوا اور یہ بڑھ کر 75.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔
کئی دہائیوں سے تنازعات کے شکار عراق کو دیرینہ اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اور اسے بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے منصوبوں میں کثیر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ تیل کی آمدنی میں اضافہ اور فی بیرل قیمتوں کے یہ اعداد و شمار بغداد کے سالانہ بجٹ کی تیاری کے لیے بہت اہم ثابت ہو ں گے۔
تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود عراق کو ، جو چار کروڑ 20 لاکھ باشندوں کا وطن ہے، توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے ۔لوگوں کو بجلی کی مستقل کٹوتی اور ، لوڈ شیڈنگ کا سامنا رہتا ہے۔
پڑوسی ملک ایران اپنی گیس اور بجلی کا ایک تہائی حصہ عراق کو فراہم کرتا ہے لیکن ترسیل کے ناقص نظام کے باعث اس میں اکثر رکاوٹیں آتی ہیں، اور لوڈ شیڈنگ کے پہلے سے موجود مسائل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
گزشتہ ماہ عالمی بینک نے خبردار کیا تھا کہ عراق پر آب و ہوا کی تبدیلیوں کے شدید اثرات ہیں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے وہ خشک سالی اور پانی کی کمی کا شکار ہو سکتا ہے جس سے بچنے کے لیے اسے اپنی معیشت کو متنوع بنانا چاہیے اور ملک کو سرسبز و شاداب بنانے کے لیے اسے 2040 تک 233 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔