مشرق وسطی کے امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ عراق اپنے تیل کے ذخائر اور اپنی اسٹریٹیجک پوزیشن کی وجہ سے دنیا کے لئےبہت اہم ہے۔ اور دنیا خاموشی سے اسے ایران کی زیر اثر جاتا نہیں دیکھ سکتی۔ کیونکہ عراق کے قوم پرست مذہبی رہنما مقتدا الصدر کے کے سیاست سے ریٹائر ہونے کے اعلان کے بعد۔ انکے حامی جو عراق میں ایرانی اثرو رسوخ کی مزاحمت کرتے ہیں۔ منتشر ہو جائینگے اور ایران کے حامیوں کو اپنا اثرورسوخ بڑھانے کا موقع مل جائے گا۔
ڈاکٹر زبیر اقبال کا تعلق واشنگٹن کے مڈایسٹ انسٹیٹیوٹ سے ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ اگر عراق میں سیاسی مفاہمت کی راہ نہیں نکلتی۔ اور حقیقت میں اس قسم کی راہ نکلنے کی امید بہت ہی کم نظر آتی ہے تو پھر امید یہ ہی ہونی چاہئیے کہ خطے کے ملک اور خطے سے باہر کے ممالک بھی اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے ایسی سیاسی مفاہمت کی راہ نکالیں کہ عراق میں کم از کم ایک نیشنل یونٹی کی حکومت بن جائے۔ اس طرح بننے والی یقیننًا ایک کمزور حکومت تو ہوگی۔ لیکن ایک منظم ادارہ وجود میں آجائے گا۔ جس میں ملک کے تمام طبقوں کی نمائندگی ہو گی۔ اور جو مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھا سکے گا۔
الصدر کے ہزاروں حامی، جو بغداد کے گرین زون میں جہاں عراقی پارلیمنٹ ہے، دھرنا دئے بیٹھے تھے۔ ان کے کہنے پر منگل کے روز دھرنا ختم کرکے گرین زون سے باہر نکل گئے۔ انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ پرامن انقلاب کے لئے جدوجہد کریں۔
اس سے قبل دن میں مقتدا الصدر کے حامیوں اور ان کے مخالفین کے درمیان سخت جھڑپ میں انہوں نے بھاری اسلحہ اور راکٹ سے پھینکے جانے والے بم استعمال کئے جس کے نتیجے میں عرب میڈیا کے مطابق دو دن کی لڑائی میں تیس سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا مقتدا الصدر سیاست سے ریٹائر ہونے کے اعلان کے بعد اپنے فیصلے پر قائم رہتے ہیں۔ جس کے امکانات کم ہیں۔ لیکن اگر وہ قائم رہتے ہیں تو پھر ان کے حامی اور پیرو کار کیا خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے۔
بظاہر ایسا نہیں لگتا۔ اور امکان یہہی ہے کہ پھر وہ اپنا ایک الگ قومُ پرست گروپ بنائیں گے۔ اور اس نئے گروپ کے قائم ہونے کے بعدسیاسی مفاہمت کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں ورنہ بصورت دیگر عراق میں کسی مضبوط سیاسی حکومت کا قیام دور کی بات نظر آتی ہے۔