رسائی کے لنکس

عراقی سیاست کا ’بادشاہ گر‘


مقتدا الصدر (فائل فوٹو)
مقتدا الصدر (فائل فوٹو)

قبل مسیح دور کی سمیرین تہذیب ہو یا بابل کے معلق باغات، بغداد کی عظمت و جلال کے قصے ہوں یا اس کے شبستانوں کی داستانیں، ایران کے ساتھ طویل جنگ، کویت پر قبضہ یا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اس پر حملہ، عراق ہمیشہ ہی اہمیت کا حامل رہا ہے۔

سن دو ہزار چار میں امریکی قیادت میں شروع ہونے والی عراق جنگ دو ہزار گیارہ میں ختم ہوئی۔ تب سے عراق اس کے اثرات سے نکلنے کے لیے کوشاں ہے۔ دو ہزار پانچ میں عراق میں ایک عبوری حکومت قائم ہوئی اور دو ہزار دس میں پہلے عام انتخابات ہوئے۔ اس کے بعد سے وہاں انتخابات اور ان کے بعد پرامن طور سے اقتدار کی منتقلی کا عمل جاری ہے، جبکہ خطے کے بیشتر ملکوں میں آمریتیں اور شخصی حکومتیں قائم ہیں۔

لیکن ملک معاشی بے چینی کا بھی شکار ہے۔ دوہزار انیس سے دو ہزار اکیس کے دوران ملک بھر میں مظاہرین بار بار معاشی مسائل اور بدعنوانی کے خلاف اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے مطالبوں کے ساتھ سڑکوں پر نکلے۔ تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک کی حکومت جہاں عوام کی امنگوں پر پورا اترنے میں مشکلات کی شکار ہے، وہیں عراق خطے میں اپنے کردار میں اضافہ بھی کر رہا ہے۔

اندرونی سیاسی منظر نامہ

اس وقت عراق کی اندرونی سیاست میں چند بڑے گروپ سرگرم عمل ہیں، جن میں سب سے بڑا گروپ مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کا التیار الصدری یا Sadrist Movement گروپ ہے۔ انہوں نے دوسرے چھوٹے گروپوں کے ساتھ مل کر ایک اتحاد بنایا ہے، جسے سائرون الاصلاح کہا جاتا ہے۔

مقتدیٰ الصدر عراق کے ایک بہت بڑے مذہبی رہنما آیت اللہ العظمی محمد صادق الصدر کے بیٹے اور آیت اللہ باقر الصدر کے بھتیجے ہیں، جنہیں صدام حسین کے دور میں قتل کردیا گیا تھا۔ ان کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ ایران کے حامی ہیں۔ لیکن ان کا موقف یہ ہے کہ وہ عراقی معاملات میں ایران یا کسی بھی بیرونی ملک کی مداخلت کے مخالف ہیں۔ دوسرا گروپ سابق وزیر اعظم نوری المالکی کا ہے، جسے دستور پارٹی کہا جاتا ہے، جو نظریاتی طور پر تو ایران کے حامی ہیں لیکن عراق کے اندرونی معاملات میں ایرانی مداخلت کے مخالف ہیں۔

اس کے علاوہ دو بڑے کرد گروپ ہیں۔ ایک مسعود برزانی کی کردش ڈیمو کریٹک پارٹی اور دوسرا کردستان اتحاد ہے، جس کے سربراہ باصل طالبانی ہیں (اس کا افغان طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے) ان کے علاوہ ایران کا حامی ایک شیعہ گروپ بھی ہے، جس کا نام الفتح اتحاد ہے جس کے سربراہ ہادی الامیری ہیں۔ اس کا عسکری ونگ حشد آل شعبی ہے، جس کے عراقی کمانڈر ابو مہدی المہندس دو سال قبل ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر ہونے والے ڈرون حملے میں انکے ساتھ مارے گئے تھے۔ اس کے علاوہ ایک پروگریس پارٹی بھی وہاں فعال ہے جو حالیہ انتخابات میں دوسرے نمبر پر رہی ہے۔

مقتدیٰ الصدر ’بادشاہ گر‘

اکتوبر میں عراق میں جو انتخابات ہوئے ان میں مقتدیٰ الصدر کا گروپ پارلیمنٹ میں سب سے بڑے واحد گروپ کی حیثیت سے ابھرا۔ 329 رکنی عراقی پارلیمان میں اس کے پاس 73 نشستیں ہیں اور یوں اس وقت مقتدیٰ الصدر عراق میں بادشاہ گر کی پوزیشن میں ہیں۔ جہاں حکومت سازی کے لیے 165 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے نمبر پر پروگریس پارٹی ہے جس کی ایوان میں 37 نشستیں ہیں۔ تیسرے نمبر پر سابق وزیر اعظم نوری المالکی کی دستور پارٹی ہے، جس کے پاس 33 نشستیں ہیں۔ برزانی گروپ کے ہاس 31 اور طالبانی گروپ کے پاس 17 نشستیں ہیں اور ایران نواز الفتح اتحاد کے پاس بھی 17 ہی نشستیں ہیں۔

اکتوبر میں جو عام انتخابات ہوئے تھے ان میں ایران نواز گروپ کے سربراہ امیری نے دھاندلی کا الزام لگایا۔ اور عدالت سے رجوع کیا اور اسی لیے ملک کا کوئی باقاعدہ وزیر اعظم منتخب نہ ہو سکا۔ مصطفی الکاظمی کو جن کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں تھا اور جو آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے تھے وزیر اعظم بنادیا گیا۔

عراق کا اگلا وزیر اعظم کون ہوگا؟

اس ہفتے سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا ہے کہ انتخابات بالکل درست ہوئے تھے اور ان ہی نتائج کی مناسبت سے وزیر اعظم کا انتخاب اور انتقال اقتدار ہونا چاہئے۔ اور اب عراقی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ظاہر ہے کہ عراق میں ایک نئی حکومت بنے گی جس کی تشکیل میں مقتدیٰ الصدر کا کردار بادشاہ گر کا ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق وہ خود وزیر اعظم نہیں بننا چاہتے۔ اگلا وزیر اعظم کون ہوگا؟ یہ آئندہ چند دنوں میں واضح ہوگا۔

لیکن مشرق وسطیٰ کے امور پر نظر رکھنے والے ایک تجزیہ کار مسعود ابدالی کہتے ہیں کہ 329 اراکین کے ایوان میں حکومت بنانے کے لیے 165 نشستوں کی ضرورت ہے اور مقتدا الصدر کے گروپ سابق وزیر اعظم نوری المالکی کے گروپ اور نئی پروگریس پارٹی میں ذہنی آہنگی پائی جاتی ہے اور یہ تینوں ہی عراق کے معاملات میں ایران سمیت کسی بھی ملک کی مداخلت کے خلاف ہیں اور مل کر حکومت بنا سکتے ہیں۔ لیکن ان کی نشستوں کی تعداد 143 بنتی ہے۔ اس لیے ان تینوں کو کسی ایک یا دونوں کرد گروپوں کو اپنے ساتھ ملانا ہو گا۔ مسعود ابدالی کا کہنا تھا کہ مقتدا الصدر کہہ چکے ہیں کہ انہیں الفتح سے بھی اتحاد کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن انہیں ایران کے بارے میں اپنا موقف بدلنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ عراق میں اس وقت اکثریت کی سوچ یہ ہے کہ ملکی معاملات میں نہ ایران کی مداخلت ہونی چاہیے نہ امریکہ یا کسی مغربی طاقت کی، بلکہ عراق کی اپنی ایک آزاد اور خود مختار پالیسی ہونی چاہیے۔ اور انہی نعروں پر مقتدا الصدر نے عراق میں مقبولیت حاصل کی ہے۔ اور دوسرے تیسرے نمبر پر آنے والے گروپوں کی بھی یہی سوچ ہے۔

مشرق وسطیٰ میں عراق کا کردار

مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ نیا عراق خطے میں ایک مثبت کردار ادا کرسکتا ہے جس کی وہ کوشش کر رہا ہے۔

واشنگٹن میں قائم تحقیق ادارے مڈل ایسٹ انسٹیچوٹ سے منسلک ڈاکٹر زبیر اقبال کہتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ خطے میں امریکی دلچپسی کم ہو رہی ہے اور وہاں جو تنازعات اور جھگڑوں خصوصا ایران اور سعودی عرب کے درمیان رقابت کو طے کرانے کے لیے کوئی نظام موجود نہیں ہے، ایسے میں خطے کا کوئی ملک جس کی غیر جانبداری زیادہ متنازعہ نہ ہو اس قسم کا کردار ادا کرنے کے لیے آگے آ سکتا ہے اور اس وقت عراق یہی کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے لیے وہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کو کوششوں اور یمن کے معاملے کو سلجھانے میں عراق کے کردار کی مثال دیتے ہیں۔ بقول زبیر اقبال، عراق کوششیں کر رہا ہے اور خطے کے دوسرے ممالک کو بھی ان کوششوں میں شامل کر رہا ہے اور اب وہ مرحلہ آگیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر عرب لیگ جیسی اپنی تنظیموں کو بہتر خطوط پر استوار کر سکیں۔

تجزیہ کاروں کی نظر میں امریکہ کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہو رہا ہے اسے عرب ممالک کو خود پُر کرنا ہوگا اور اختلافات کو دور کرنے کے لیے خود کوششیں کرنی ہوں گی۔ اس منظر نامے میں ماہرین کو توقع ہے کہ عراق کے کردار میں بتدریج اضافہ نظر آئے گا۔

مقتدیٰ الصدر اور عراق۔امریکہ تعلقات

عراق کی آئندہ حکومت پر مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کا گہرا اثر ہوگا جس سے امریکہ اور مغربی ممالک کے لیے ایک نیا چیلنج پیدا ہو سکتا ہے۔ تاہم ڈاکٹر زبیر اقبال کی نظر میں چونکہ عراق میں الصدر گروپ سمیت کوئی بھی سیاسی دھڑا اتنا طاقتور نہیں کہ محض اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرسکے اور جن افراد کے وزیر اعظم بننے کا امکان ہے وہ سب ہی اعتدال پسند تصور کیے جاتے ہیں اس لیے انتہا پسندانہ فیصلوں کا امکان خاصا کم ہے۔ عراق کے معاملات میں ایران کی مداخلت بھی ایک حقیقت ہے۔ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا عراق میں متحرک ہیں جو امریکہ کے لیے خطے سے متعلق ایک اہم مسئلہ ہے۔ تجزیہ کاروں کی نظر میں اگر ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری معاہدہ دوبارہ طے ہو جاتا ہے تو پھر عراقی قیادت کو ایران یا امریکہ میں سے کسی ایک کے انتخاب کے عمل سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مقتدیٰ الصدر اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جو کردارعراق اس خطے میں ادا کرنے کا خواہاں ہے اسکے لیے اسے انتہا پسندی سے گریز کرنا ہوگا اور اعتدال پسندی کی راہ اختیار کرنی ہو گی۔

XS
SM
MD
LG