لندن —
عراق میں دسمبر سے حکومت کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں ۔ احتجاج کرنے والے بیشتر لوگ سنّی ہیں ۔ ان کا مطالبہ ہے کہ شیعہ وزیرِ اعظم نوری المالکی اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں ۔ وہ ان لوگوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں جنہیں کسی مقدمے کے بغیر جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف قانون معطل کیا جائے کیوں کہ اس کے تحت خاص طور سے سنیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔
مسٹر مالکی کے شیعہ حامی بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اور اضافہ ہو گا۔
لندن میں تجزیہ کار کرس ڈوئیل کہتے ہیں کہ عراق میں سنّی بہت دن سے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ملک کی شیعہ حکومت انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتی۔
’’وہ محسوس کرتےہیں کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ نوری المالکی کی حکومت، اسٹیٹ آف لا پارٹی، در اصل شیعہ قوم پرستوں کی حکومت ہے، جس نے سنیوں کے مفادات کو مکمل طور سے نظر انداز کر دیا ہے۔‘‘
ان احتجاجوں کا آغاز سنّی اکثریت والے صوبے انبار سے اس وقت ہوا جب فوج نے سنّی وزیرِ مالیات رافا الاساوی کے باڈی گارڈز کو گرفتار کر لیا ۔
سنّی نائب صدر طارق الہاشمی کی اپنے عہدے سے برطرفی کے بعد ، وہ کابینہ میں اہم ترین سنی رکن ہیں۔ ہاشمی پر الزام ہے کہ وہ قاتلوں کے گروہ منظم کرتے تھے اور ان کی غیر حاضری میں ان کے وارنٹ جاری کر دیے گئے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ الزامات من گھڑت ہیں اور سیاسی وجوہ کی بنا پر عائد کیے گئےہیں ۔
مذہبی عالم مقتدہ الصدر نے ، جو مسٹر مالکی کے حریف ہیں، احتجاجیوں کے لیے حمایت کا اظہار کیا ہے ۔ انھوں نے الحرا ٹی وی سے کہا کہ عراق میں تمام فرقوں کو متحد ہو جانا چاہیئے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک مظاہرین واضح طور پر بتاتے ہیں کہ ان کے مطالبات کیا ہیں، یہ مظاہرے جمہوری اور پُر امن اظہار کا طریقہ ہیں۔ ہر ایک کو ان مظاہروں سے مہذب انداز میں نمٹنا چاہیئے۔
مسٹر مالکی نے ملک میں بے چینی کی روک تھام کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں۔ انھوں نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ ان 700 عورتوں کو رہا کردیں گے جو قید میں ہیں ۔
مشرقِ وسطیٰ کے ماہر جیمی انگرام کہتے ہیں کہ مسٹر مالکی کو بڑے مشکل مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ’’میرے خیال میں انہیں ان احتجاجوں پر حیرت ہوئی ہے ۔ انھوں نے صورتِ حال کو پر سکون بنانے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے اردن کے ساتھ سرحد کو بند کر دیا ہے تا کہ احتجاجیوں پر اور زیادہ اقتصادی دباؤ پڑے۔ شاید اس اقدام سے حالات اور زیادہ خراب ہو جائیں گے۔‘‘
عراق کی عرب حکومت شمال کے بڑی حد تک خودمختار کرد علاقے کے ساتھ تیل اور زمین کے تنازعے میں بھی الجھی ہوئی ہے ۔ کرد اور سنی وزرا نے احتجاجیوں کے ساتھ ہمدردی کے اظہار کے طور پر، کابینہ کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے ۔
مبصرین کہتے ہیں کہ عراق سے امریکی فوجوں کے چلے جانے کے ایک سال بعد، سنیوں، شیعوں اور کردوں کے نیٹ ورک کی کمزوریاں ظاہر ہو رہی ہیں۔
کرس ڈوئیل کہتے ہیں’’یہ ایسا بحران ہے جو بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے اور ہم ہر طرف احتجاج دیکھ رہے ہیں۔ اگر ان کشیدگیوں کا کوئی حل نہ نکلا، تو پھر یہ صورتِ حال اور زیادہ بڑے بحران میں تبدیل ہو سکتی ہے ۔‘‘
اپریل میں صوبائی انتخابات ہونے والے ہیں اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ملک میں بے چینی اس وقت تک جاری رہے گی۔
مسٹر مالکی کے شیعہ حامی بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اور اضافہ ہو گا۔
لندن میں تجزیہ کار کرس ڈوئیل کہتے ہیں کہ عراق میں سنّی بہت دن سے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ملک کی شیعہ حکومت انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتی۔
’’وہ محسوس کرتےہیں کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ نوری المالکی کی حکومت، اسٹیٹ آف لا پارٹی، در اصل شیعہ قوم پرستوں کی حکومت ہے، جس نے سنیوں کے مفادات کو مکمل طور سے نظر انداز کر دیا ہے۔‘‘
ان احتجاجوں کا آغاز سنّی اکثریت والے صوبے انبار سے اس وقت ہوا جب فوج نے سنّی وزیرِ مالیات رافا الاساوی کے باڈی گارڈز کو گرفتار کر لیا ۔
سنّی نائب صدر طارق الہاشمی کی اپنے عہدے سے برطرفی کے بعد ، وہ کابینہ میں اہم ترین سنی رکن ہیں۔ ہاشمی پر الزام ہے کہ وہ قاتلوں کے گروہ منظم کرتے تھے اور ان کی غیر حاضری میں ان کے وارنٹ جاری کر دیے گئے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ الزامات من گھڑت ہیں اور سیاسی وجوہ کی بنا پر عائد کیے گئےہیں ۔
مذہبی عالم مقتدہ الصدر نے ، جو مسٹر مالکی کے حریف ہیں، احتجاجیوں کے لیے حمایت کا اظہار کیا ہے ۔ انھوں نے الحرا ٹی وی سے کہا کہ عراق میں تمام فرقوں کو متحد ہو جانا چاہیئے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک مظاہرین واضح طور پر بتاتے ہیں کہ ان کے مطالبات کیا ہیں، یہ مظاہرے جمہوری اور پُر امن اظہار کا طریقہ ہیں۔ ہر ایک کو ان مظاہروں سے مہذب انداز میں نمٹنا چاہیئے۔
مسٹر مالکی نے ملک میں بے چینی کی روک تھام کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں۔ انھوں نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ ان 700 عورتوں کو رہا کردیں گے جو قید میں ہیں ۔
مشرقِ وسطیٰ کے ماہر جیمی انگرام کہتے ہیں کہ مسٹر مالکی کو بڑے مشکل مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ’’میرے خیال میں انہیں ان احتجاجوں پر حیرت ہوئی ہے ۔ انھوں نے صورتِ حال کو پر سکون بنانے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے اردن کے ساتھ سرحد کو بند کر دیا ہے تا کہ احتجاجیوں پر اور زیادہ اقتصادی دباؤ پڑے۔ شاید اس اقدام سے حالات اور زیادہ خراب ہو جائیں گے۔‘‘
عراق کی عرب حکومت شمال کے بڑی حد تک خودمختار کرد علاقے کے ساتھ تیل اور زمین کے تنازعے میں بھی الجھی ہوئی ہے ۔ کرد اور سنی وزرا نے احتجاجیوں کے ساتھ ہمدردی کے اظہار کے طور پر، کابینہ کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے ۔
مبصرین کہتے ہیں کہ عراق سے امریکی فوجوں کے چلے جانے کے ایک سال بعد، سنیوں، شیعوں اور کردوں کے نیٹ ورک کی کمزوریاں ظاہر ہو رہی ہیں۔
کرس ڈوئیل کہتے ہیں’’یہ ایسا بحران ہے جو بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے اور ہم ہر طرف احتجاج دیکھ رہے ہیں۔ اگر ان کشیدگیوں کا کوئی حل نہ نکلا، تو پھر یہ صورتِ حال اور زیادہ بڑے بحران میں تبدیل ہو سکتی ہے ۔‘‘
اپریل میں صوبائی انتخابات ہونے والے ہیں اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ملک میں بے چینی اس وقت تک جاری رہے گی۔