ریگستان میں اپنے کیمپ کی حفاظت کرنے والے عراقی سپاہیوں کو دیکھ کر جلا وطن ایرانی قاتل کے نعرے لگاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کی تصویریں ہیں جنہیں عراقیوں نے کیمپ اشرف پر حملے کے دوران ہلاک کیا تھا۔ مجاہدین ِ خلق کا یہ کیمپ بغداد کے شمال مشرق میں واقع ہے ۔ یہ گروپ عراق میں کئی عشروں سے آباد ہے۔ اسے صدام حسین نے 1980 کے عشرے میں ایران عراق جنگ کے دوران پناہ دی تھی۔ لیکن مبینہ چھاپے کے اگلے دن جب صحافی اس کیمپ کو دیکھنے آئے، تو یہاں انہیں کوئی قابلِ دید چیز نظر نہیں آئی ۔ عراق کی وزارتِ دفاع کے ترجمان محمد العسکری نے کہا کہ سیکورٹی فورسز بالکل پُر امن تھیں لیکن انہیں دھمکیاں دی گئیں اور ان کی بے عزتی کی گئی۔’’اس کیمپ کے مکینوں کا طرزِ عمل قانون کے خلاف تھا جیسے وہ عراق میں نہیں ہیں اور ان پر عراق کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔‘‘
یہ بات واضح نہیں ہے کہ اصل میں کیا ہوا۔ لیکن مجاہدینِ خلق نے ایک وڈیو جاری کیا ہے جس میں وہ مناظر دکھائے گئے ہیں جنہیں انھوں نے قتلِ عام کہا ہے ۔ یہ وڈیو YouTube پر پوسٹ کر دیا گیا ہے اور واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس میں دکھایا گیا جس میں مجاہدین ِ خلق کے حامی موجود تھے۔ وائس آف امریکہ کے لیئے غیر جانبدار ذرائع سے اس وڈیو کی تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس موقع پر سابق گورنر اور ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہاورڈ ڈان سمیت امریکہ کی اہم سیاسی شخصیات موجود تھیں۔
2003 میں امریکہ کی قیادت میں عراق پر حملے کے بعد، مجاہدین خلق اپنے ہتھیاروں سے دستبردار ہو گئے اور امریکہ نے انہیں امان دے دی۔ لیکن 2009 میں کیمپ کا کنٹرول امریکی فوج سے عراقی حکومت کو منتقل ہو گیا۔ مجاہدینِ خلق اور ان کے حامیوں کو اس صورت حال پر تشویش ہے اور انھوں نے اکثر یورپی ملکوں کے دارالحکومتوں میں مظاہرے کیئے ہیں۔
مجاہدینِ خلق کی تنظیم 1960 کی دہائی کے وسط میں ایرانی طالب علموں نے قائم کی تھی۔ یہ مارکسٹ خیالات ، بائیں بازو اور اسلامی نظریات کا مجموعہ تھی۔ شروع کے دنوں میں انھوں نے شاہ محمد رضا پہلوی کے خلاف جنگ کی اور پھر کچھ عرصے کے لیئے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ملک کے نئے حکمرانوں کا ساتھ دیا۔ امریکی محکمۂ خارجہ کےمطابق، انقلاب سے پہلے مجاہدین خلق ایران میں کم ا ز کم چھ فوجی اور سویلین امریکیوں کے ہلاکت میں ملوث تھے اور امریکی سفارت خانے پر حملے اور امریکی سفارتکاروں کو یرغمال بنانے میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔ امریکی محکمۂ خارجہ نے 1990 کی دہائی میں اس گروپ کو غیر ملکی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر دیا اور آج بھی یہ گروپ اس فہرست میں شامل ہے۔
مجاہدین ِ خلق کے ارکان اور ان کے حامی پورے یورپ میں پھیلے ہوئے ہیں، خاص طور سے فرانس میں جہاں مریم رجاوی سمیت ان کی اعلیٰ قیادت رہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا مقصد ایران میں اسلامی حکومت کا تختہ الٹنا اور سیکولر جمہوری حکومت قائم کرنا ہے ۔ لیکن مسعود اور Anne Khodabandeh کے مطابق، جو مجاہدینِ خلق کی برطانوی شاخ کے سابق رکن ہیں، یہ تنظیم ہر گز جمہوری نہیں ہے ۔اس قسم کی تنقید کے باوجود، اس گروپ کے حامیوں کی بھی کمی نہیں۔ ان میں سابق صدرجارج ڈبیلو بش کی انتظامیہ کے بعض چوٹی کے عہدے دار شامل ہیں۔
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ کے پیٹرک کلاسن کہتےہیں کہ مجاہدین خلق کو واشنگٹن کے لوگوں کو متاثر کرنے کا فن آتا ہے۔ وہ کہتےہیں’’انھوں نے خود کو ایران میں جمہوری تحریک کے طور پر پیش کیا ہے۔ دنیا بھر میں بہت سے لوگ، اور امریکہ میں بہت سے لوگوں کو ایران میں جمہوری تحریک سے ہمدردی ہے۔‘‘
مجاہدینِ خلق نے ایک عشرے قبل تشدد کو خیر باد کہہ دیا تھا لیکن بہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر چہ یہ اب دہشت گرد گروپ نہیں ہے، لیکن جدید دور کے ایرانیوں میں اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ صحافی گیراتھ پورٹر کہتے ہیں’’مجاہدینِ خلق کے لیئے تاریخ کے جس باب سے پیچھا چھڑانا مشکل ہے وہ یہ ہے کہ ایران عراق جنگ کے دوران، وہ عراق میں رہ رہے تھے اور صدام حسین کے کرایے کے فوجی بن گئے تھے۔‘‘
مجاہدینِ خلق کے بارے میں اب بھی بہت سی مختلف آرا ہیں اور کیمپ اشرف جو صدام حسین کے لیئے سیاسی طور سے بہت اہم تھا، موجودہ عراقی حکومت کے لیئے ناگواری کا باعث ہے۔ حکومتِ عراق کا کہنا ہے کہ کیمپ اشرف پر اس کا کنٹرول برقرار رہے گا، اور وہ اس میں رہنے والوں کے انسانی حقوق کی حفاظت کرے گی ۔