رسائی کے لنکس

عراق: بعث پارٹی کے فروغ کا الزام، صدام کی بیٹی کو سات برس قید کی سزا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عراق کی ایک عدالت نے عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کی جلا وطن صاحب زادی کو ان کے والد کی کالعدم جماعت ’بعث پارٹی‘ کی تشہیر کرنے پر ان کی غیر حاضری میں سات برس قید کی سزا سنائی ہے۔

صدام حسین کی جماعت کو 2003 میں عراق پر امریکہ کے حملے کے بعد تحلیل کر دیا گیا تھا اور اس کو ملک میں کالعدم جماعت قرار دیا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ رغد صدام حسین کالعدم جماعت بعث پارٹی کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی مجرم پائی گئی ہیں۔

عدالت نے رغد صدام حسین کو ان کے دو سال قبل 2021 میں دیے گئے انٹرویوز کی بنیاد پر سزا سنائی ہے۔

عراق میں اب اس برطرف حکومت کو منظم کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی تصویر دکھانے یا نعرے لگانے پر عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں اس انٹرویو یا انٹرویو کے حصے کا تذکرہ نہیں کیا جس کی بنیاد پر انہیں سزا سنائی گئی ہے۔

واضح رہے کہ رغد صدام حسین نے 2021 میں نشریاتی ادارے ’العربیہ‘ کو بھی انٹرویو دیا تھا جس میں انہوں نے عراق میں عوام کی حالتِ زار کا موازنہ اپنے والد کے دورِ حکومت سے کیا تھا۔ صدام حسین 1973 سے 2003 تک عراق کے حکمران رہے تھے۔

اپنے انٹرویو میں اُنہوں نے کہا تھا کہ کئی لوگوں نے ان کو بتایا ہے کہ ان کا دورِ حکومت بے شک ایک عزت و وقار کا زمانہ تھا جس میں عراق ایک مستحکم اور امیر ملک تھا۔

رغد صدام حسین اردن میں مقیم ہیں جہاں ان کی بہن بھی ان کے ساتھ رہتی ہیں۔

صدام حسین کے دونوں بیٹوں 39 سالہ عدی صدام حسین اور 37 سالہ قصی صدام حسین کو 2003 میں امریکہ کی فوج نے شمالی عراق کے شہر موصل میں ہلاک کر دیا تھا۔

زیادہ تر عراقی شہری صدام حسین کے لگ بھگ تین دہائیوں پر محیط دورِ اقتدار کو بدترین جبر کا زمانہ قرار دیتے ہیں۔

امریکہ نے مارچ 2003 میں عراق پرحملہ کیا تھا۔

یہ حملہ اس الزام کی بنیاد پر کیا گیا تھا کہ عراق میں صدام حسین کی حکومت کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ بعد ازاں عراق میں ایسے ہتھیاروں کی موجودگی ثابت نہیں ہو سکی تھی۔

صدام حسین کی حکومت ختم ہونے اور امریکہ کی شروع کی گئی جنگ کے بعد عراق میں اقتدار کا توازن سنیوں کے مقابلے میں شیعہ آبادی کے حق میں ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی کردوں کو اپنے علاقوں میں خود مختاری حاصل ہو گئی تھی۔

کئی عراقیوں نے جنگ کے دوران پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے صدام حسین کی حکومت ختم ہونے کا خیر مقدم کیا تھا۔ اس سے قبل یہ رپورٹس بھی سامنے آئی تھیں کہ شیعہ اور کرد آبادیوں کو ریاستی جبر کا سامنا ہے۔

صدام حسین کی حکومت ختم ہونے کے بعد عراق میں شیعہ اور سنی گروہوں میں اقتدار کے حصول کے لیے خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اس خانہ جنگی کے حالات میں امریکہ نے 2011 میں ملک سے اپنی فوج نکال لی تھی۔

دوسری جانب سنی اور شیعہ آبادی میں پائی جانے والی خلیج کی وجہ سے جب 2014 میں داعش نے عراق اور شام میں شورش پیدا کی تو عراق کی پولیس اور فوج اس طوفان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔

بنیادی طور پر دہشت گرد تنظیم ’القاعدہ‘ سے جنم لینے والے شدت پسند گروہ ’داعش‘ کے شام اور عراق میں پھیلاؤ سے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو نئے خطرے کا احساس ہوا۔

داعش نہ صرف شام اور عراق میں تباہی اور دہشت کی علامت بن گئی تھی بلکہ اس کے عالمی نیٹ ورک نے مغربی ممالک کے لیے بھی سیکیورٹی سے متعلق گہرے خدشات پیدا کردیے تھے۔

داعش کے خطرے سے نمٹنے کے لیے 2014 میں بغداد میں قائم حکومت نے امریکہ کو اپنی فوج عراق بھیجنے کی باضابطہ دعوت دی۔ اس دوران امریکہ کی زیرِ قیادت اتحاد نے عراق اور شام میں داعش پر فضائی حملے کیے اور عراقی فوج کو تربیت اور مشاورت بھی فراہم کی۔

عراق جنگ کے 20 سال؛ اب حالات کیسے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:45 0:00

مارچ 2019 میں داعش کی خلافت کی قیام کی مہم ختم ہونے کے بعد بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراقی فوج کی معاونت جاری رکھی اور اس میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے بھی کردار ادا کیا۔

اس وقت عراق میں 2500 امریکی فوجی اہل کار ہیں۔ یہ عراقی فوجیوں کے ساتھ مختلف تنصیبات میں موجود ہیں جہاں وہ تربیت اور آلات فراہم کررہے ہیں۔

ان اہل کاروں کی تعداد کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ تاہم پینٹا گان عراق میں معاونت اور شام میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں شریک ہونے والے اہل کاروں کی تعداد ظاہر نہیں کرتا۔

سال 2019 سے 2022 کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوج کی قیادت کرنے والے مرین کور کے جنرل فرینک مکینزی کا کہنا ہے کہ عراق میں داعش کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔

XS
SM
MD
LG