اسرائیل اور حماس میں سات اکتوبر سے جاری جنگ میں غزہ کے اسپتالوں ادویات اور ضروری طبی اشیا کی شدید کمی ہے جب کہ بمباری کے سبب زخمیوں کی تعداد میں مسلسل اضافے سے صورتِ حال خراب ہو چکی ہے۔
شہر کے ایک اسپتال میں خدمات انجام دیتےہوئے ڈاکٹر ندال عابد کا کہنا تھا کہ زخمیوں کو فرش پر لٹا کر، راہ داری میں بستر بچھا کر اور دو مریضوں کے لیے مخصوص کمرے میں 10 زخمیوں کے علاج کی صورت میں طبی امداد دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کے بقول زخمیوں کے لیے پٹی یا بینڈیج عدم دستیاب ہونے کے سبب کپڑے کی پٹیاں استعمال کی جا رہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ زخموں پر لگائی جانے والے جراثیم کش ادویات (اینٹی سیپٹک) ختم ہو چکی ہیں اب اس کے بجائے سرکہ لگایا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر ندال عابد نے بتایا کہ طبی عملہ زخموں پر ٹانکے لگانے والی مخصوص طبی سوئیوں (سرجیکل نیڈلز) کی جگہ کپڑے سینے والی سوئیاں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
غزہ کی عسکری تنظیم حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر زمین، فضا اور بحری راستوں سے ایک ساتھ اچانک اور غیر متوقع حملے کیے تھے۔ ان حملوں میں 1400 سے زائد اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ حماس کے حملوں کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کرکے بمباری شروع کر دی تھی۔
دوہفتے سے زائد سے جاری ناکہ بندی اور بمباری سے غزہ میں اشیاء ضروریہ کی قلت ہے جب کہ اسپتالوں میں علاج کا نظام تباہ ہونے کے قریب ہے۔ غزہ لگ بھگ دو ہفتوں سے ایندھن، بجلی کی فراہمی اور خوراک کی اشیا سمیت دیگر ضروریات کی ترسیل بند ہے۔
زخمیوں اور دیگر بیماروں کے علاج میں استعمال ہونے والے سامان کے علاوہ صاف پانی کی بھی شدید کمی ہے۔
درد کو کم کرنے اور انفیکشن سے بچنے کے لیے بنیادی اشیا ختم ہو رہی ہیں۔
اسپتالوں کے جنریٹرز کے لیے ایندھن ختم ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
ڈاکٹر ندال عابد ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نامی عالمی تنظیم سے منسلک ہیں۔ انہوں نے القدس اسپتال سے خبر رساں ادارے‘ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے گفتگو میں بتایا کہ طبی عملے کے پاس ہر چیز کی کمی ہے جب کہ وہ اس دوران انتہائی پیچیدہ سرجریوں سے بھی نمٹ رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج کی طرف سے جمعے کو متعدد طبی مراکز خالی کرنے کے احکامات سامنے آئے تھے۔ لیکن انخلا کے حکم کے باوجود طبی مرکز اب بھی سینکڑوں زخمیوں ور مریضوں کے علاج میں مصروف ہیں۔
جنگ اور بمباری سے غزہ کی نصف آبادی بے گھر ہو چکی ہیں جن میں لگ بھگ دس ہزار فلسطینی بھی اسپتال کے احاطے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
’’یہ سب لوگ خوف زدہ ہیں اور میں بھی خوف زدہ ہوں۔‘‘
القدس اسپتال کے سرجن ڈاکٹر ندال عابد کے بقول ’’لیکن کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم یہاں سے نکل جائیں۔‘‘
غزہ کے شفا اسپتال کے جنرل ڈائریکٹر محمد ابو سلمیہ کا کہنا تھا کہ شفا اسپتال میں 700 مریضوں کے علاج کی گنجائش ہے۔ لیکن اس میں پانچ ہزار سے زائد افراد یہاں زیرِ علاج ہیں۔
ڈاکٹر زخمیوں اور علاج کے لیے آئے ہوئے افراد سے بھری راہ داریوں میں کراہتے ہوئے مریضوں کےدرمیان خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اسپتالوں میں ایسے چھوٹےبچوں کو بھی انتہائی نگہداشت کے وارڈز میں لایا جا رہا ہے جن کے ساتھ ان کے خاندان کا کوئی فرد نہیں ہوتا کیوں کہ بمباری میں نشانہ بننے کے سبب ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر ندال عابد کہتے ہیں کہ یہ حالات ان کو سکتے کی سی کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں رفح کراسنگ کے ذریعہ بھیجی گئی ابتدائی امداد غزہ میں درکار ضروریات کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔
عالمی ادارے کی پانچ ایجنسیوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ہفتے کے دن غزہ میں 20 ٹرکوں میں داخل ہونے والی امداد صرف ایک چھوٹا سا آغاز ہے اور یہ کافی نہیں ہے۔
ان پانچوں ایجنسیوں نے انسانی بنیادوں پر جنگ بند کرنے اور عام شہریوں تک محفوظ رسائی پر زور دیا تاکہ انسانی جانوں کو بچانے اور مزید مصائب کو روکنے کی کوشش کی جا سکے۔
بیان کے مطابق غزہ میں تازہ ترین تنازع سے قبل ہی بدتر انسانی صورتِ حال تھی۔ اب حالات تباہ کن ہو گئے ہیں۔ دنیا کو مزید کچھ کرنا چاہیے۔
یہ مشترکہ بیان اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی)، یو این پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے)، یو این چلڈرن فنڈ (یونیسیف)، ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے جاری کیا گیا۔
ان پانچوں اداروں نے اپیل کی ہے کہ پینے کا صاف پانی، خورا ک اور ایندھن بھی غزہ آنے دیا جائے۔
انسانی ہمدردی کے تحت ایک امدادی قافلہ ہفتے کی صبح مصر کے ساتھ واقع رفح بارڈر کی راہداری کے ذریعے غزہ میں داخل ہوا تھا۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے تل ابیب میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد اعلان کیا تھا کہ غزہ میں رفح کے ذریعہ امداد کی اجازت دے دی گئی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ امداد عسکریت پسند تنظیم حماس کے ہاتھ نہیں لگنی چاہیے۔
سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے میں لگ بھگ 1400 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ یرغمال بنائے گئے کئی افراد ابھی حماس کے قبضے میں ہیں۔
اسرائیل کی غزہ کے محصور علاقے پر جاری بمباری میں ہزاروں فلسطینی نشانہ بن چکے ہیں۔
اس رپورٹ میں زیادہ تر معلومات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔