امریکی قانون سازوں کا کہنا ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو نا صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہیں اور اُس کے خلاف ایک جامع منصوبہ بندی کے ذریعے کارروائی کی جائے۔
انھوں نے ان خدشات کا اظہار امریکی صحافی جیمز فولی کے قتل کے تناظر میں کیا۔
ہوم لینڈ سکیورٹی کمیٹی کے چیئرمین مائیکل میکال، جو ریپبلکن ہیں، اُن کا کہنا تھا کہ ستمبر 2001ء میں امریکہ پر دہشت گردی کے حملے کے بعد ’اسلامک اسٹیٹ یا آئی ایس آئی ایس‘ دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
’’(شدت پسندوں) کی کارروائیوں اور اثر و رسوخ میں گزشتہ سال سے اضافہ ہو رہا ہے اور اب اس مقام تک پہنچ گئے کہ امریکی صحافی کی گردن کاٹ کر قتل کیا۔‘‘
امریکی ٹی وی چینل کے پروگرام ’’میٹ دی پریس‘‘ میں انیٹلی جنس کمیٹی کے چیئرمین مائیک روجر نے اپنی ساتھی سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یورپ اور امریکہ سے کچھ جنگجوؤں کا مشرق وسطی جا کر اس دہشت گرد نیٹ ورک میں شامل ہونے سے یہ خدشہ ہے کہ وہ واپس مغرب آئیں۔
’’انہیں امریکہ واپس آنے کے لیے صرف ایک ٹکٹ کی ضرورت ہے اور یہ وجہ ہے کہ ہم اس بارے میں اتنی تشویش رکھتے ہیں۔‘‘
امریکی میرین کے سابق سربراہ جان ایلن بھی ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی وجہ سے امریکہ اور دنیا کو لاحق خطرے کی سنگینی سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو اس بارے خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکمت عملی طے کرنی چاہیئے۔
’’اس کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔‘‘
امریکی صدر براک اوباما نے عراق میں فضائی کارروائی کو صرف شہریوں اور سفارتکاروں کو لاحق خطرے کے پیش نظر، ان کے تحفظ کو یقینی بنانے تک محدود کرنے کی کوشش کی۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ امریکی شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔
اگرچہ جیمز فولی کے قتل پر کانگرس کے اراکین نے شدید ردعمل کا اظہار کیا لیکن کچھ کا کہنا تھا کہ امریکہ کو اس واقعے پر ’اشتعال میں آ کر‘ عراق میں دوبارہ فوج نہیں بھیجنی چاہیں۔
ڈیموکریٹک کانگریس مین ڈونا ایڈورڈ کا کہنا تھا کہ ستمبر میں اس معاملے کانگریس میں مزید بحث کرنے کی ضرورت ہے۔
’’ہمیں بات کرنا ہو گی۔ میرے خیال میں یہ بہت اہم ہے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر شدت پسندوں کے خلاف آئندہ آنے والے دنوں میں امریکی فوجی کارروائیوں کا دائرہ کار بڑھانے کے نتائج کا جائزہ لیں گے۔