عراق میں عسکریت پسندوں نے اپنی تازہ ترین کارروائی میں ملک کی ایک مرکزی آئل ریفائنری (تیل کی تنصیب) پر حملہ کر کے اسے نقصان پہنچایا ہے۔
دارالحکومت بغداد اور موصل شہر کے درمیان بیجی کے مقام پر واقع اس تنصیب پر بدھ کو حملے میں عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی۔
گزشتہ ہفتے دولت اسلامیہ فی العراق والشام (آئی ایس آئی ایل) کے جنگجوؤں نے موصل پر قبضہ کیا تھا۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے بدھ ہی کو اس عزم کا اظہار کیا کہ ’’دہشت گردوں‘‘ سے عراق میں مقدس اسلامی مقامات کو محفوظ بنانے کے لیے تہران جو کچھ ضروری ہوا کرے گا۔
بدھ ہی کو، امریکی صدر براک اوباما کانگرس کے رہنماؤں سے مل رہے ہیں جس میں عراق کی صورت حال اور شدت پسندوں کی پیش قدمی کے جواب میں ممکنہ ردعمل پر گفت و شنید کریں گے۔
وائٹ ہاؤس میں یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب صدر اوباما عراقی افواج کی مدد اور فضائی کارروائی پر غور کررہے ہیں جبکہ وہ وہاں سیاسی اتحاد کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنے نے منگل کو کہا کہ عراق کے مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں لیکن ’’انتہا پسند گروہوں کا زور توڑنے کے لیے عراق کو مزید نمایاں مدد کی ضرورت ہے۔‘‘
وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساکی کے مطابق عراق کی طویل المدت کامیابی کے لیے سیاسی حل بھی ایک اہم جزو ہے۔
’’ہمارے خیال میں عراق میں کامیاب نتیجہ کسی ملک کی مداخلت سے ممکن نہیں۔ انہیں سیاسی سطح پر جامع اقدام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت فرقہ وارانہ تعصب سے پاک انداز سے چلائی جائے۔ لیکن امریکی اور صدر اوباما کئی آپشنز پر غور کررہے ہیں جن میں امریکہ کے قومی سلامتی کے مفادات بھی شامل ہیں۔‘‘
عسکریت پسند متعدد عراقی شہروں پر قبضہ کر چکے ہیں اور انھوں نے بغداد پر حملے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔
عراقی وزیراعظم نوری المالکی منگل کو شیعہ، سنی اور کرد رہنماؤں سے ملے جنھوں نے ٹی وی پر آکر متحد رہنے کا عزم کیا۔
وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں عراقی وزیر خارجہ ہوشیار زیباری نے حالیہ بغاوت کو حکومت کے لیے ’’سب سے بڑا خطرہ‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی نا صرف عراق اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے لیے خطرہ ہے بلکہ امریکہ کے لیے بھی۔
دارالحکومت بغداد اور موصل شہر کے درمیان بیجی کے مقام پر واقع اس تنصیب پر بدھ کو حملے میں عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی۔
گزشتہ ہفتے دولت اسلامیہ فی العراق والشام (آئی ایس آئی ایل) کے جنگجوؤں نے موصل پر قبضہ کیا تھا۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے بدھ ہی کو اس عزم کا اظہار کیا کہ ’’دہشت گردوں‘‘ سے عراق میں مقدس اسلامی مقامات کو محفوظ بنانے کے لیے تہران جو کچھ ضروری ہوا کرے گا۔
بدھ ہی کو، امریکی صدر براک اوباما کانگرس کے رہنماؤں سے مل رہے ہیں جس میں عراق کی صورت حال اور شدت پسندوں کی پیش قدمی کے جواب میں ممکنہ ردعمل پر گفت و شنید کریں گے۔
وائٹ ہاؤس میں یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب صدر اوباما عراقی افواج کی مدد اور فضائی کارروائی پر غور کررہے ہیں جبکہ وہ وہاں سیاسی اتحاد کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنے نے منگل کو کہا کہ عراق کے مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں لیکن ’’انتہا پسند گروہوں کا زور توڑنے کے لیے عراق کو مزید نمایاں مدد کی ضرورت ہے۔‘‘
وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساکی کے مطابق عراق کی طویل المدت کامیابی کے لیے سیاسی حل بھی ایک اہم جزو ہے۔
’’ہمارے خیال میں عراق میں کامیاب نتیجہ کسی ملک کی مداخلت سے ممکن نہیں۔ انہیں سیاسی سطح پر جامع اقدام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت فرقہ وارانہ تعصب سے پاک انداز سے چلائی جائے۔ لیکن امریکی اور صدر اوباما کئی آپشنز پر غور کررہے ہیں جن میں امریکہ کے قومی سلامتی کے مفادات بھی شامل ہیں۔‘‘
عسکریت پسند متعدد عراقی شہروں پر قبضہ کر چکے ہیں اور انھوں نے بغداد پر حملے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔
عراقی وزیراعظم نوری المالکی منگل کو شیعہ، سنی اور کرد رہنماؤں سے ملے جنھوں نے ٹی وی پر آکر متحد رہنے کا عزم کیا۔
وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں عراقی وزیر خارجہ ہوشیار زیباری نے حالیہ بغاوت کو حکومت کے لیے ’’سب سے بڑا خطرہ‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی نا صرف عراق اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے لیے خطرہ ہے بلکہ امریکہ کے لیے بھی۔