ماہرینِ آثار قدیمہ کے ایک گروپ نے لڑائی کے نتیجے میں تباہ ہونے والے موصل کے مشرقی حصے کے تاریخی مقامات کا دورہ کیا ہے۔ دورے کا مقصد داعش کے شدت پسندوں کی جانب سے اس دعوے کی تصدیق کرنا بھی تھا جس نے کہا تھا کہ اُنھیں کھنڈرات کے نیچے 2500 سال قدیم محل دریافت ہوا ہے۔
گذشتہ ماہ عراق کے محکمہٴ آثار قدیمہ کے ماہرین کے ایک گروپ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کی مزار کے مقام کا دورہ کیا تاکہ داعش کے انخلا کے بعد تباہی کا تخمینہ لگایا جا سکے۔
گروپ حیران رہ گیا جب اُسے کئی نوادرات برآمد ہوئیں، جن کا تعلق قوم آشور کی تہذیب کے ایک بادشاہ سے بتایا جاتا ہے، جس نے 669ء سے 681ء کے دور میں حکمرانی کی تھی۔
آثار قدیمہ کی ماہر، لیلیٰ صالحہ نے، جنھوں نے اس گروپ کی قیادت کی۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’ہمیں سنگ مرمر میں کُندہ تحریر ملی ہے، جس کا تعلق قدیم شام کے دیوتا سے ہے، ایک بیل کا حیران کُن مجسمہ بھی ملا ہے جس کے پَر ہیں۔ اس دریافت نے ہمیں حیران کر دیا‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ داعش کے لڑاکوں نے سرنگیں کھود رکھی ہیں، جب کہ اُنھیں کچھ نادر اشیا ملی ہیں۔
صالحہ نے بتایا کہ ’’جو قدیم نوادرات ہم نے برآمد کی ہیں وہ اہم نوعیت کی ہیں، عین ممکن ہے کہ داعش نے نوادرات کے چھوٹے ٹکڑے چرائے ہوں، جنھیں وہ آسانی کے ساتھ لے گئے ہوں‘‘۔
زیارت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ موصل کا انتہائی معروف قدیم مقام ہے، جہاں حضرت یونس (علیہ السلام) کی قبر ہے، جو یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں کے لیے مساوی طور پر متبرک ہے۔