عراق میں جاری پرتشدد مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد 73 ہو گئی ہے جبکہ حکام نے دارالحکومت بغداد میں کرفیو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
عراقی حکام کا کہنا ہے کہ ہفتے ہی کے روز پولیس کی جانب سے حکومت مخالف مظاہرین پر چلائی گئی گولی کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہوا، جس کے بعد ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 73 ہوگئی ہے۔
دو روزہ کرفیو اٹھنے کے بعد آج پہلے ہی روز مظاہرین نے پھر سے سڑکوں کا رخ کیا۔
مبینہ بے روزگاری، عام آدمی کو سہولیات کی عدم دستیابی اور بدعنوانی پر احتجاج کرتے ہوئے مظاہرین منگل کے روز سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
ہفتے کے روز ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی کال شیعہ ملیشیا کے سابق رہنما، مقتدا الصدر نے دی تھی، جن کی پارٹی کی پارلیمان میں حزب مخالف کی سب سے زیادہ نشستیں ہیں۔ انھوں نے حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ’’اقوام متحدہ کی سرپرستی میں قبل وقت انتخابات کرائے جائیں‘‘۔
رواں ہفتے منگل کے روز دارالحکومت سمیت مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے حکام نے سکیورٹی اداروں کو طاقت کے استعمال کے احکامات دیے جس سے پانچ روز میں چھ درجن افراد کی موت ہو چکی ہے جبکہ سیکڑوں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق دارالحکومت کی شاہراہوں پر ٹریفک کی روانی معمول کی طرح ہے۔ کنکریٹ کے بڑے بلاک رکھ ان مقامات کو بلاک کیا گیا ہے جہاں مظاہرین کی سکیورٹی اداروں سے جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
ملک کے نیم سرکاری انسانی حقوق کے کمیشن نے کہا ہے کہ سکیورٹی اداروں نے احتجاج کے دوران درجنوں افراد کو حراست میں لیا تھا تاہم ان میں سے اکثر کو رہا کر دیا گیا ہے۔
جمعے کو بھی دارالحکومت سمیت کئی شہروں میں احتجاج کیا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سکیورٹی اداروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کئی پرتشدد حربے استعمال کیے۔
رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مظاہرین کے احتجاج کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس نے اسنائپرز کا بھی استعمال کیا اور کئی افراد ان کا نشانہ بنے جبکہ کئی مقامات پر سکیورٹی اداروں نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ بھی کی۔
خیال رہے کہ اسنائپر گن سے کافی دور بیٹھ کر بھی کسی کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے جبکہ اس میں لگی دور بین سے ہدف کو نشانہ بنانے میں کافی حد تک معاونت ملتی ہے۔
احتجاج کرنے والوں پر آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال تمام متاثرہ شہروں میں دیکھنے میں آیا۔
سکیورٹی اداروں کا دعویٰ تھا کہ احتجاج کرنے والوں میں مسلح افراد شامل تھے جنہوں نے پولیس پر فائرنگ کی جس سے کئی اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی رپورٹ کے مطابق فوج کا کہنا ہے کہ بغداد میں احتجاج میں نامعلوم اسنائپرز بھی موجود تھے جن کی فائرنگ سے چار افراد کی ہلاکت ہوئی۔ جن میں دو پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔
خیال رہے کہ عراق میں حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ چار روز قبل شروع ہوا تھا۔ مظاہرین نوکریوں کی غیر منصفانہ تقسیم، بے روز گاری اور سرکاری اداروں میں بدعنوانی کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے۔
احتجاج کا آغاز منگل کو دارالحکومت سے ہوا تھا تاہم بعد ازاں یہ کئی شہروں میں پھیل گیا۔ زیادہ تر احتجاج ملک کے جنوبی علاقوں میں ہوا۔
واضح رہے کہ عراق میں داعش کو 2017 میں شکست کے بعد یہ سب سے ہلاکت خیز احتجاج قرار دیا جا رہا ہے۔ احتجاج سے عادل عبد المہدی کی حکومت کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
خیال رہے کہ عراق کے سب سے طاقت ور سمجھے جانے والے سیاسی رہنما مقتدیٰ الصدر نے بھی جمعے کو حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
مقتدیٰ الصدر کو نا صرف عوام کے ایک بڑے حصے کی حمایت حاصل ہے بلکہ ان کے حامی اراکین کی پارلیمنٹ میں بھی بڑی تعداد موجود ہے۔
مقتدیٰ الصدر نے دوبارہ انتخابات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ پارلیمان میں موجود دیگر جماعتیں بھی حکومت کے خلاف صف آرا ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کے مطابق وزیر اعظم عادل عبد الہادی نے کہا ہے کہ وہ مظاہرین کے جائز مطالبات ماننے کے لیے تیار ہیں تاہم انہوں نے احتجاج کا سلسلہ ختم کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔
اقوام متحدہ اور امریکہ نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف تشدد پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ عراق کی انتظامیہ سے افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے پر زور دیا ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی سکیورٹی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق عراق دنیا کو تیل فراہم کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ورلڈ بینک کے 2014 کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ملک کی 22 فی صد آبادی یومیہ دو ڈالر سے بھی کم میں گزارا کرنے پر مجبور ہے۔
گزشتہ برس عراق میں بے روز گاری کی شرح7.9فی صد تھی تاہم نوجوانوں میں یہ شرح 15 فی صد سے بھی زیادہ ہے۔
عراق کے ایک بڑے حصے پر 2014 میں شدت پسند تنظیم داعش قابض ہو گئی تھی۔ 2017 میں اس کا قبضہ تو ختم کروا لیا گیا ہے تاہم اس کے اثرات اب بھی موجود ہیں جس سے نکلنے کے لیے یہ ملک کوشاں ہے۔