عراق کے وزیرِاعظم حیدر العبادی نے کہا ہے کہ عراقی فوج اور اس کی اتحادی شیعہ ملیشیاؤں نے تکریت کے مرکزی علاقے کا قبضہ شدت پسند تنظیم داعش سے چھڑا لیا ہے۔
عراقی وزیرِاعظم کی جانب سے منگل کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عراقی فورسز تکریت کے وسط میں پہنچ چکی ہیں اور انہوں نے شہر کے جنوبی اور مغربی علاقے کو جنگجووں سے آزاد کرالیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ شدت پسندوں کو تکریت سے باہر دھکیلنے اور پورے شہر پر حکومت کا کنٹرول مستحکم کرنے کے لیے فوج کی پیش قدمی جاری ہے۔
اطلاعات ہیں کہ تکریت کے وسط پر سرکاری فوج کے قبضے کے باوجود شہر کے بعض علاقوں میں اب بھی لڑائی ہورہی ہے۔
عراقی صوبہ صلاح الدین کے دارالحکومت اور سابق صدر صدام حسین کے آبائی شہر کے اب بھی کم از کم تین نواحی علاقے داعش کے شدت پسندوں کے قبضے میں ہیں۔
اطلاعات کے مطابق شہر کے شمال میں موجود سابق دور کے محلات پر بھی شدت پسندوں کا قبضہ برقرار ہے جو عراقی فوج کی پیش قدمی کے خلاف سخت مزاحمت کر رہے ہیں۔
عراقی فوج اور اس کی حامی ملیشیاؤں نےایک ماہ قبل داعش سے تکریت کا قبضہ چھڑانے کے لیے اپنی پیش قدمی کا آغاز کیا تھا۔
عراقی فوج کو اس کارروائی میں داعش کےخلاف امریکہ کی قیادت میں بننے والے بین الاقوامی اتحاد کی فضائی حملوں کی معاونت بھی حاصل رہی ہے۔
تکریت کے جنوب کی جانب سے پیش قدمی کرنے والے عراقی فوجی دستوں نے صوبائی گورنر کے دفاتر اور شہر کے مرکزی اسپتال کا کنٹرول سنبھا ل لیا ہے جہاں سےداعش کے جنگجو پسپا ہوگئے ہیں۔
عراقی حکام کو شبہ ہے کہ پسپا ہونے والے جنگجووں نے شہر کے مختلف مقامات پر بارودی سرنگیں بچھادی ہیں۔
فوجی حکام کا کہنا ہے کہ عمارتوں پر تعینات جنگجو، ماہر نشانہ بازوں کی فائرنگ اور زیرِ زمین موجود سرنگوں اور تہہ خانوں سے نکل کر اچانک حملوں جیسی کارروائیوں کے ذریعے فوج کی پیش قدمی میں خلل ڈال رہے ہیں۔