رسائی کے لنکس

عراق میں پارلیمانی انتخابات سے قبل حکومت مخالف مظاہروں میں شدت


عراق کے شہر کربلا میں قتل ہونے والے حکومت مخالف کارکن ایہب الوزنی کے جنازے میں شریک سوگواران۔ فوٹو نو مئی دو ہزار اکیس
عراق کے شہر کربلا میں قتل ہونے والے حکومت مخالف کارکن ایہب الوزنی کے جنازے میں شریک سوگواران۔ فوٹو نو مئی دو ہزار اکیس

عراق میں چھ جون کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آگئی ہے۔ اتوار کو حکومت مخالف ایک سرگرم کارکن ایہب الوزنی کو قتل کر نے اور ایک صحافی احمد حسن کو سر میں گولی مارنے کے واقعے کے بعد مظاہرین نے بدھ کے روز ایران کے قونصل خانے کے سامنے احتجاج کیا اور کچھ املاک کو آگ بھی لگا دی، جس پر ایران نے احتجاج کیا ہے ۔

ادھر عراقی حکومت نے ایہب الوزنی کے قتل اور صحافی احمد حسن پر قاتلانہ حملے کے واقعے کی سرکاری تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ جبکہ عراقی وزیر اعظم نے ان واقعات کی فوری تحقیقات کا عزم ظاہر کیا ہے ۔

واضح رہے کہ عراق کے حکومتی اداروں میں بد عنوانی کے خلاف سرگرم کارکن ایہب الوزنی کو ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات کربلا شہر میں ان کے گھر کے باہر موٹر سائیکل سواروں نے گولیاں ماری گئی تھیں۔ یہ حملہ نگرانی کیلئے لگائے گئے کیمروں پر بھی ریکارڈ ہوا تھا۔

جبکہ عراقی صحافی احمد حسن کو سر میں گولی لگنے کے بعد انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں لے جایا گیا تھا۔

ان واقعات کے بعد شہر کی سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور عوام نے قتل کے ایسے واقعات کی تحقیقات اور حکومت کی مبینہ بے حسی کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ قتل ہونے والے کارکن ایہب الوزنی کربلا میں عراقی حکومت مخالف مظاہروں کی قیادت کر رہے تھے۔ اس علاقے میں ایران نواز مسلح گروپوں کا راج ہے۔

عراقی ذرائع ابلاغ کے مطابق نوجوانوں پر مشتمل احتجاجی مظاہرین نے بدھ کے روز بھی کربلا شہر میں احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا اور ایرانی قونصل خانے کے نزدیک آگ لگانے کے واقعات بھی پیش آئے۔

ایرانی قونصل خانے کے قریب آتش زنی کے اس واقعے پر ایران نے احتجاجی بیان جاری کیا ہے۔

نومبر 2019ء میں اسی قونصل خانے کو آگ لگا دی گئی تھی۔

عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الخادمی نے، جو خود بھی ایک صحافی رہ چکے ہیں، ان تازہ حملوں کی پشت پناہی کرنے والوں کا کھوج لگانے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کا وعدہ کیا ہے۔ ساتھ ہی، انھوں نے حکومت مخالف احتجاج کرنے والوں کی گزشتہ ہلاکتوں پر سخت اقدامات کا عہد کیا ہے۔

انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ قتل کے واقعات کی تفتیش کے لئے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس میں تجربہ کار سابق ججوں کو رکن کے طور پر شامل کیا گیا ہے، تاکہ عینی شاہدین سے چھان بین کرنے کے علاوہ اس بات کو طے کیا جا سکے کہ اصل حقائق کیا ہیں۔

عراق کے اہم شیعہ قائدین، عمار حکیم اور مقتدیٰ الصدر دونوں ہی نے قتل کے اس واقعے پر احتجاج کیا ہے۔ حکیم نے کہا ہے کہ احتجاج کرنے والوں اور صحافیوں کا قتل ملک میں صورت حال کو بدتر کرنے کے عزائم کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے۔ الصدر نے قتل کے ان واقعات کو ''بزدلانہ حربہ'' قرار دیتے ہوئے، عراقیوں سے ''پُرامن رہنے'' کی اپیل کی ہے۔

عراقی تجزیہ کار سلیم مشکور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بگڑتی ہوئی صورتحال کسی مبینہ سازش کا حصہ ہو سکتے ہیں، جس میں ان کے بقول ''ایک طرف ایران، تو دوسری جانب امریکہ اور سعودی عرب دکھائی دیتے ہیں، جب کہ عراق درمیان میں الجھ کر رہ گیا ہے''۔

عراق میں چھ جون کو پارلیمانی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں اور تجزیہ کار سلیم مشکور کے بقول، چند گروپ یہ چاہتے ہیں کہ حکومت پر دباؤ ڈال کر انتخابات کو مؤخر کرایا جائے۔

بقول ان کے، ''مقصد یہ لگتا ہے کہ انتخابات میں تاخیر کی جائے۔ کوئی یہ چاہتا ہے کہ الیکشن ملتوی ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہنگامہ آرائی کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں تاکہ سلامتی کی نوعیت کی مشکلات پیدا کی جائیں، جس سے انتخابات کی راہ میں روڑے اٹکائے جا سکیں''۔

پیرس کی ایک یونیورسٹی میں سیاسیات پڑھانے والے خطر ابو ضیاب کہتے ہیں کہ متعدد عراقی نوجوان، جن میں سنی اور شیعہ دونوں شامل ہیں، ملک کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، اور یہ مقصد بہت سے نوجوانوں کو سڑکوں پر لے آیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایران کے حامی ملیشیا گروپوں نے ہنگامہ آرائی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بقول ان کے، چونکہ وہ لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے اب وہ تحریک کے چند رہنماؤں کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔

عراق کی موجودہ حکومت کے خلاف عوام کے احتجاجی مظاہرے 2019ء کے موسم گرما کے دوران بصرہ شہر میں شروع ہوئے تھے ۔ یہ مظاہرے پینے کے صاف پانی، ایندھن اور بجلی کی قلت کے خلاف نکالے گئے تھے۔ بعدازاں، یہ احتجاج اکتوبر، 2019ء میں بغداد اور دیگر شہروں تک پھیل گیا تھا۔

مئی 2019ء میں سابق وزیر اعظم عبدل مہدی مستعفی ہوگئے تھے، جس کے بعد موجودہ عراقی وزیر اعظم مصطفی الخادمی سیاسی منظرنامے پر نمودار ہوئے، جو امریکہ یا ایران سے منسلک نہیں ہیں۔

XS
SM
MD
LG