عراق میں جاری حکومت مخالف مظاہرے دوبارہ شدت اختیار کر گئے ہیں، جس کے دوران کربلا شہر میں سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے 14 مظاہرین ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔
عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں وقفے کے بعد ایک مرتبہ پھر شدت آگئی ہے۔ پیر کو خراب معاشی صورتِ حال، کرپشن اور بے روزگاری کے خلاف سیکڑوں افراد کربلا شہر میں جمع ہوئے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق سیکورٹی اور اسپتال ذرائع نے بتایا ہے کہ پیر کی رات کربلا میں سیکورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے 14 افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ 865 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
صرف ایک ماہ کے دوران عراق میں مظاہرین اور سیکورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپوں میں اب تک 250 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
عراق کے جنوبی شہر ناصریہ میں بھی تین زخمی مظاہرین زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے ہیں۔
ملکی دارالحکومت بغداد میں انتظامیہ نے مظاہروں کو روکنے کے لیے کرفیو بھی نافذ کر دیا ہے۔ بغداد میں پیر کو اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ نے بھی مظاہرے کیے تھے جس کے دوران سیکورٹی فورسز نے ان پر آنسو گیس کے شیل بھی فائر کیے۔
'رائٹرز' کے مطابق، بغداد کے دو اضلاع میں عراقی فوجیوں نے طلبہ پر تشدد بھی کیا جس سے متعلق عراق کی وزارتِ دفاع نے ایک مذمتی بیان بھی جاری کیا ہے۔
وزارتِ دفاع کے بیان میں طلبہ پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث فوجی اہلکار عراق کی فوج کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے۔ البتہ، بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ مذکورہ اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی یا نہیں۔
خیال رہے کہ عراق 2003 سے 2017 کے دوران خانہ جنگی، داعش کے حملوں اور غیر ملکی افواج کی آمد کے باعث عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔
گزشتہ دو برسوں کے دوران ملک میں نسبتاً استحکام دیکھا جا رہا تھا۔ لیکن، حالیہ پرتشدد مظاہروں کے بعد ملک ایک مرتبہ پھر عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے۔