اسرائیل اور حماس کی جنگ کے دوران غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کی اموات ہو چکی ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اموات کی نئی تعداد سامنے آتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار دے کون رہا ہے اور ان پر کتنا بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟
گزشتہ ہفتے صدر جو بائیڈن نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ غزہ میں حماس کے زیرِ کنٹرول وزارتِ صحت کس طرح اموات کی تعداد کا حساب لگاتی ہے انہیں اس پر "کوئی اعتماد" نہیں ہے۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے واضح نہیں کیا کہ وہ کیوں اس وزارت کو ناقابلِ اعتماد سمجھتے ہیں۔
صدر بائیڈن کو جواب دیتے ہوئے وزاتِ صحت نے 27 اکتوبر کو 212 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی جس میں مارے گئے چھ ہزار 747 فلسطینیوں کے نام، عمر، جنس اور شناختی نمبرز موجود تھے۔ وزارت نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ بڑے پیمانے پر جانی نقصان کی ذمے داری پوری طرح اسرائیلی فوج کی "جارحیت" پر عائد کرتے ہیں۔
جب یہ فہرست جاری کی گئی تو وزارت کی جانب سے یہ کہا گیا تھا اموات کی تعداد رپورٹ کی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہے اور لگ بھگ 300 فلسطینیوں کی لاشیں ناقابلِ شناخت ہیں۔
اب وزارت کی جانب سے جاری کیے گئے نئے اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر کے بعد سے اب تک آٹھ ہزار 306 فلسطینی اسرائیل کی جوابی بمباری میں جان سے گئے ہیں۔
سات اکتوبر کو حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملے کیے تھے جس میں 1400 کے قریب اسرائیل کے شہری ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد سے اسرائیل نے جوابی کارروائی میں غزہ پر بمباری کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
وزارت کے حالیہ اعداد و شمار میں 471 وہ اموات بھی شامل ہیں جو دو ہفتے قبل غزہ سٹی میں الاھلی عرب اسپتال میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں ہوئی تھیں۔
فلسطینی سیاسی رہنماؤں کا الزام ہے کہ اسرائیل کے میزائل نے اس اسپتال کو تباہ کیا۔ لیکن اسرائیل اور امریکہ کی حالیہ انٹیلی جینس معلومات غزہ سے غلط فائر ہونے والے راکٹ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
تاہم وزارت اپنی سرکاری دستاویز میں اسرائیل کو اس کا ذمے دار قرار دیتی ہے۔
کچھ روز قبل امریکہ کے قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے وزارت کو "حماس کا ایک محاذ' قرار دیا تھا۔
اگرچہ غزہ کی پٹی سے باہر آنے والے تمام سرکاری مراسلت کو حماس کی جانب سے سختی سے ریگولیٹ کیا جاتا ہے، مگر مغربی کنارے میں موجود فلسطینی اتھارٹی وزارت کی تیکنیکی طور پر نگرانی کرتی ہے وہ اس کے ورکرز کو ادائیگی کرتی ہے اور غزہ کے اسپتالوں کو طبی سامان بھی فراہم کرتی ہے۔
تاہم غزہ کی وزارت کے آزادانہ طور پر کام کرنے کی صلاحیت پر جان کربی اور کئی آزاد تجزیہ کاروں نے سوال اٹھایا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ اسپتال میں مرنے والوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔
غزہ میں اعداد و شمار کیسے حاصل کیے جاتے ہیں؟
فلسطینی اتھارٹی کئی برسوں سے میڈیا پر ان کے اعداد و شمار حاصل کرنے کے طریقے کو بیان کر رہی ہے۔ حال ہی میں ترجمان نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا تھا کہ اموات کی تعداد غزہ میں اسپتالوں، ایمبولینسوں اور سب سے پہلے پہنچنے والوں کی براہ راست رپورٹنگ کی بنیاد پر ریکارڈ کی جاتی ہے۔ ان کے بقول ریڈ کریسینٹ بھی اس میں مدد کرتی ہے۔
ترجمان کے مطابق ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی عمر، جنس اور زخم کی نوعیت پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔ بعد ازاں ان افراد کی ناموں سے شناخت کی جاتی ہے۔
اس کے بعد غزہ میں حکام معلومات کو مغربی کنارے کے ڈی فیکٹو دارالحکومت رملہ بھیج دیتے ہیں جہاں فلسطینی اتھارٹی اپنے ریکارڈ کو اپ ڈیٹ کرتی ہے۔
البتہ ترجمان کا کہنا تھا کہ کبھی کبھار اعداد و شمار میں تضاد دیکھے گئے ہیں لیکن یہ عمومی طور پر قابلِ اعتماد ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ حماس کو دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں کیا کہتی ہیں؟
نیو یارک سے تعلق رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ وزارت کے اعداد و شمار کافی حد تک درست ہیں اور جب ماضی میں اس نے غزہ میں ہلاکتوں کی تحقیقات کیں تو اس میں کوئی خاص خامیاں نہیں پائی گئیں۔
ادھر اسپتال میں دھماکے کے بعد عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ہیلتھ ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیکل ریان نے ایک ورچوئل پریس کانفرنس میں وزارت کی رپورٹنگ پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔
اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کا کیا مؤقف ہے؟
اسرائیل کی ڈیفنس فورسز کے ترجمان نے گزشتہ ہفتے الزام لگایا تھا کہ غزہ کی وزارتِ صحت "شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ" کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزارت "ماضی میں جھوٹ بولتے ہوئے پکڑی گئی ہے۔" انہوں نے مشاہدہ کیا کہ غزہ میں موجود حکام نے ابتدائی طور پر الاھلی عرب اسپتال دھماکے میں 500 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا جسے بعد ازاں کم کر کے 471 کردیا گیا۔
غزہ کے حکام یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کی درست گنتی ایک مشکل مرحلہ ہوتی ہے کیوں کہ اسپتالوں میں آنے والی بعض لاشوں کے ٹکڑے ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس لیے صرف بکھرے ہوئے اعضا کی بنیاد پر بہت کم وقت اور فارنزک آلات کی عدم دست یابی کی وجہ سے درست شناخت کرنا آسان نہیں ہوتا۔
دھماکے کے کچھ ہی دیر بعد امریکی انٹیلی جینس نے کہا تھا کہ اسپتال میں مرنے والوں کی تعداد "ممکنہ طور پر 100 اور 300 کے درمیان کم سے کم سطح پر رہی ہو گی۔"
فلسطینی اتھارٹی کے وزیرِ اعظم محمد اشتیہ نے گزشتہ جمعرات کو الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بائیڈن اور دیگر ناقدین کا بالواسطہ حوالہ دیتے ہوئے امریکہ پر تنقید کی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ کچھ رہنما ایسے ہیں جو حقیقت دیکھنا نہیں چاہتے۔ ان کے بقول دیے گئے اعداد و شمار درست ہیں۔ یہ ہمارے نمبر ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہمیں غزہ کے اسپتالوں سے روزانہ فراہم کیے جاتے ہیں جو ہماری وزارتِ صحت موصول کرتی ہے۔
فورم