بھارت میں گزشتہ کئی روز سے کرونا کیسز کی یومیہ تعداد تین لاکھ سے اوپر آ رہی ہے۔ جب کہ وبا سے ہونے والی یومیہ اموات کی تعداد ڈھائی ہزار سے تین ہزار کے درمیان ہے۔
لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ کرونا سے ہونے والی اموات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
ماہرین کے مطابق محکمۂ صحت کی جانب سے کرونا سے ہونے والی اموات کی جو تعداد بتائی جا رہی ہے وہ یقینی طور پر درست نہیں ہے۔ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
ان کے مطابق ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ان لوگوں کی تعداد کتنی ہے جو کرونا پازیٹیو ہونے کے باوجود بغیر ٹیسٹنگ کے انتقال کر گئے۔ یا جن کی ٹیسٹ رپورٹ اسپتالوں کی طرف سے عام نہیں کی گئی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مرکزی محکمۂ صحت بھی اموات کی درست تعداد مخفی رکھ رہا ہے اور ریاستی صحت کے ادارے بھی اسی کوشش میں ہیں۔ البتہ شمشان گھاٹوں، قبرستانوں اور بلدیاتی اداروں کی رپورٹس کچھ اور کہانی بیان کرتی ہیں۔
شمشان گھاٹوں میں 24 گھنٹے چتائیں جل رہی ہیں۔ اس کے باوجود لواحقین کو آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تو کئی مقامات پر فٹ پاتھوں اور پارکنگ ایریاز میں بھی لاشیں نذر آتش کی جا رہی ہیں۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی کی ریاست گجرات کے صنعتی شہر سورت میں شمشانوں کا انتظام دیکھنے والے ٹرسٹ کے صدر نے میڈیا کو بتایا کہ گزشتہ 10 روز سے یومیہ 100 ڈیڈ باڈیز آخری رسوم کے لیے لائی جا رہی ہیں۔ جو کہ کووڈ پروٹوکول کے مطابق پلاسٹک میں لپٹی ہوتی ہیں۔ لیکن سورت کے میونسپل ادارے کی جانب سے 19 اپریل کو کرونا سے صرف 28 اموات رپورٹ کی گئیں۔
اسی طرح قبرستانوں میں بھی جگہ کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ قبرستانوں کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ان کے اوپر بہت زیادہ بوجھ بڑھ گیا ہے۔ عام دنوں کے مقابلے میں روزانہ کئی گنا زیادہ میتیں تدفین کے لیے آ رہی ہیں۔
دہلی کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’ہم ہندوستانی‘ کے صدر محمد نظام نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جن کرونا مریضوں کو اسپتالوں میں جگہ نہیں ملتی۔ وہ گھروں پر علاج کراتے ہیں لیکن ان کی اموات سرکاری ریکارڈ میں درج نہیں ہو پاتی۔
ایسے بہت سے لوگوں کی، جن کی کرونا سے موت ہو رہی ہے، کرونا اموات کے لیے مخصوص قبرستانوں کے بجائے عام قبرستانوں میں تدفین ہو رہی ہے۔ محمد نظام کے مطابق اصل اموات کی تعداد حکومت کی جانب سے بتائی جانے والی اموات کی تعداد سے کم از کم دس گنا زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کرونا کی اس دوسری لہر میں نوجوان بھی بیمار پڑ رہے ہیں اور اس سے قبل کہ انہیں کسی اسپتال میں جگہ ملے یا آکسیجن ملے دو ایک روز کے اندر ہی ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ لیکن حکومت ایسی اموات کو کرونا اموات میں شمار نہیں کرتی۔ وہ اسے قدرتی موت مانتی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت میں وبا سے لڑنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے کوئی تیاری نہیں کی گئی۔ عالمی اداروں نے پہلے ہی کہا تھا کہ اپریل اور مئی میں دوسری لہر آئے گی۔ لیکن حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی۔
محمد نظام اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت نے بڑی لاپروائی دکھائی ہے۔ چوں کہ اب عوام میں خوف و دہشت پیدا ہو رہی ہے۔ اس لیے اطلاعات کے مطابق حکومت نے ٹیسٹنگ میں کمی کر دی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے دہلی حکومت یومیہ ایک لاکھ افراد کا ٹیسٹ کرتی تھی لیکن اب اس نے اسے گھٹا کر 70 ہزار کر دیا ہے۔ تو جو 30 ہزار افراد بچ گئے ان میں کتنے کرونا پازیٹیو ہیں کہا نہیں جا سکتا۔
ان کے مطابق ان کے اپنے علاقے جامعہ نگر میں جو لوگ پازیٹیو ہو رہے ہیں یا جن کی کرونا سے موت ہو رہی ہے۔ ان کا حکومت کے پاس کوئی اندراج ہی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کہتی ہے کہ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے پاس تمام اعداد و شمار موجود ہیں۔ جب کہ آئی سی ایم آر کے پاس اعداد و شمار اس وقت جمع ہوتے ہیں جب اس کی ذمہ دار ایجنسیاں اس کو ڈیٹا فراہم کرتی ہیں۔ لیکن اب ان ایجنسیوں کو کہہ دیا گیا ہے کہ ہمیں پانچ چھ فی صد سے زائد ڈیٹا نہیں چاہیے۔
ان کے بقول حکومت ایک تو اپنی ناکامی چھپانے کے لیے درست تعداد نہیں بتا رہی اور دوسرے اس سے عوام کے درمیان خوف و ہراس بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ حالاں کہ اب لوگوں میں بہت زیادہ ڈر بیٹھ گیا ہے۔ لہٰذا کئی این جی اوز اس سلسلے میں بھی کام کر رہی ہیں اور ہیلپ لائن نمبر جاری کرکے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی کوشش کر رہی ہیں۔
گجرات، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش سمیت کئی ریاستی حکومتوں پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ حقائق عوام سے چھپا رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسی خبریں بھی آئی تھیں کہ ریاستی حکومت نے لکھنؤ میں شمشانوں کی حالت لوگوں سے چھپانے کے لیے دیواریں بنا دی ہیں۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اس شکایت پر کہ ریاستی حکومت کرونا اموات کو چھپا رہی ہے، سماعت کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت دی کہ وہ ٹیسٹنگ او ر اموات کی تفصیلات عام کرے۔
چیف جسٹس محمد رفیق اور جسٹس اتول سری دھرن پر مشتمل بینچ نے اس معاملے پر سخت رخ اختیار کیا اور ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا۔ اب اس معاملے پر 28 اپریل کو سماعت ہوگی۔
اسی طرح گجرات ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے کرونا اموات پر از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ ٹیسٹ اور اموات کی تفصیلات شائع کرے۔
چیف جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس بھارگو کاریہ نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ کرونا اور دیگر امراض سے مرنے والوں کی تفصیلات پیش کرے۔
حکومت کی جانب سے حقائق چھپانے کے الزام کی تردید کی جاتی ہے۔
مرکزی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ حکومت پوری ذمہ داری کے ساتھ کرونا پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جب کہ اموات کے اعداد و شمار چھپانے کا الزام غلط ہے۔