کابل ایئر پورٹ کے قریب جمعرات کو ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ اسلامک اسٹیٹ خراسان (IS-K) نے ایسے وقت میں کیا گیا جب کہ ایک جانب طالبان وادی پنج شیر اور چند مقامات پر مزاحمت کے سوا تقریباً پورے ملک کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں اور دوسری طرف نہ صرف افغانستان میں مقیم غیر ملکیوں کا وہاں سے انخلا جاری ہے، بلکہ عام افغان شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد کابل ائیر پورٹ پر حملے کے ایک روز بعد دوبارہ ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئرپورٹ پر جمع ہے۔
کابل میں ہونے والا خوفناک حملہ کس رجحان اور آنے والے دنوں میں کس صورت حال کی جانب اشارہ کرتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں اسلام آباد کی ڈیفینس یونیورسٹی کے انسداد دہشت گردی کے شعبے سے منسلک ڈاکٹر خرم اقبال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ''یہ حملہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے بلکہ گزشتہ تقریباً سات سال سے جاری سلسلے کی ایک کڑی ہے''۔
انہوں نے کہا کہ چند سال پیشتر داعش نے اپنے خراسان چیپٹر کا آغاز کیا تھا اور اس وقت سے داعش اور طالبان کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ چند ہفتے قبل داعش کے جو لیڈر طالبان کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ یہ اس کا انتقام بھی ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر خرم نے افغانستان میں موجود داعش کے جنگجووں کی تعداد 'ہزاروں' میں قرار دی، اور کہا کہ ان کے خیال میں یہ سلسلہ ختم ہونے والا نہیں ہے بلکہ ابھی چلے گا۔
ان کے بقول، داعش خراسان کے خلاف ماضی میں امریکہ اور اس وقت کی افغان حکومت نے کارروائیاں کیں بلکہ کئی موقعوں ہر افغان طالبان بھی ایسی کئی مشترکہ کارروائیوں کا حصہ بنے۔
طالبان کو کثیر الجہت مزاحمت کا سامنا ہو سکتا ہے
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر خرم اقبال نے کہا کہ حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں طالبان کو، جو ظاہر ہے کہ آگے چل کر اپنی حکومت بنائیں گے، ملک میں کثیر الجہت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنج شیر کے حالات تو سامنے ہی ہیں۔ طالبان مذاکرات کے ذریعے وہاں کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو وہاں خونریزی کا بھی خطرہ ہے۔
لیکن ان کے بقول، پنج شیر سے قطع نظر افغانستان میں کئی وار لارڈز ایسے ہیں جنہوں نے طالبان کے قبضے کے پیش نظر، حکمت عملی کے تحت پسپائی کا انتخاب کیا جن میں رشید دوستم، عطا محمد نور اور دوسرے کئی کمانڈرز ہیں۔ ان میں سے کچھ تو ملک سے باہر چلے گئے ہیں اور کچھ ملک میں ہی ہیں۔ وہ طالبان کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے۔ اپنے جنگجوؤں کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور کسی نہ کسی مرحلے پر طالبان کے خلاف مزید مزاحمت کریں گے۔ اسی طرح سے اسلامک اسٹیٹ بھی ایسا ہی ایک گروپ ہے جس کی طرف سے گزشتہ کئی برسوں سے طالبان کو چیلنج کا سامنا ہے، اور یہ چیلنج آج بھی برقرار ہے۔
پاکستان کے لیے داعش کا خطرہ بدستور موجود ہے
اس سوال کے جواب میں کہ کیا موجودہ حالات میں داعش یا افغانستان میں موجود دوسرے دہشت گرد گروہوں کی جانب سے پاکستان کے لئے بھی خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر خرم اقبال نے کہا کہ دونوں ملکوں کی سرحد پر باڑ لگنے کے بعد اس خطرے سے نمٹنا آسان ہو گیا ہے۔ لیکن یہ خطرہ پوری طرح ختم نہیں ہوا۔ اس لئے کہ دونوں ملکوں کے درمیان طویل سرحد ہے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایسے کئی علاقے ہیں جہاں باڑ کی حفاظت مشکل اور اسے سبوتاژ کرنا آسان ہے۔ تو یقیناً پاکستان کے ہی نہیں بلکہ خطے کے کئی دوسرے ملکوں کے بھی داعش کے حوالے سے تحفظات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ داعش ایک علاقائی نہیں بلکہ بین الاقوامی خطرہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں داعش کے خلاف طالبان اور خطے کے دوسرے ممالک کے درمیاں ایک مضبوط پارٹنر شپ دیکھنے کو ملے۔ اور یہ بھی ہو سکتا کہ کسی موقع پر داعش کو کنٹرول کرنے کے لئے امریکہ اور طالبان بھی ایک دوسرے سے تعاون پر تیار ہو جائیں۔
افغانستان کے مستقبل کا انحصار طالبان کے رویے پر ہے
عقیل یوسفزئی ایک صحافی اور افغان امور کے ماہر ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا اسلامک اسٹیٹ خراسان ISIS کا ایک چیپٹر ہے۔ جو چند سال پہلے وجود میں آیا اور اس کے مقاصد میں چین، افغانستان اور پاکستان میں ان کے اپنے فلسفہ حیات یا تشریح شدہ دین کی ترویج کرنا اور اسے فروغ دینا شامل ہے۔ عقیل یوسفزئی کے خیال میں طالبان اور داعش اور داعش -خراسان کے درمیان شدید مخاصمت ہے۔
پاکستان کے لئے داعش کی جانب سے خطرات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ خطرات حقیقی ہیں۔
جب پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ خود افغانستان کے اندر اس نوعیت کی مزید دہشت گردی ہو سکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کا انحصار بڑی حد تک طالبان کے رویے پر ہے کہ وہ کس حد تک عام شہری اور بین الاقوامی برادری کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔