رسائی کے لنکس

فضل الرحمٰن کا اسٹیبشلمنٹ سے متعلق بیانیہ؛ ’وہ اس انتہا تک نہیں جائیں گے جہاں سے واپسی نہ ہوسکے‘


جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ناقدین انہیں ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھتے ہیں۔ لیکن فروری 2024 کے بعد مولانا اسٹیبلشمنٹ سے خاصے نالاں نظر آتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے قومی اسمبلی کے بارے میں بیان دیا ہے کہ "ہم اس ایوان کو عوام کا کم اور اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ زیادہ سمجھتے ہیں۔"

جے یو آئی کے سربراہ اپنے آبائی حلقے ڈیرہ اسماعیل خان سے قومی اسمبلی کی نشست ہار چکے ہیں۔ لیکن بلوچستان سے قومی اسمبلی کی نشست پر انہیں کامیابی ملی اور وہ اسمبلی پہنچے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق جے یو آئی اس وقت قومی اسمبلی کی چار نشستوں کے ساتھ ایوان میں موجود ہے۔

بعض مبصرین کی نظر میں مولانا فضل الرحمٰن اسٹیبلشمنٹ سے اتنے نالاں ہیں کہ اس وقت وہ اپنی بدترین مخالف رہنے والی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کو خوش گوار قرار دے رہے ہیں۔

مولانا نے اسلام آباد میں اپنے پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا کے سامنے یہ بیان بھی دیا کہ جے یو آئی پارلیمنٹ میں تو بیٹھے گی لیکن وہ اس پر بھی غور کر رہی ہے کہ آیا ان کی جماعت کو پارلیمانی سیاست برقرار رکھنی چاہیے یا سیاست ترک کر دینی چاہیے۔

کیا جے یو آئی اسٹیبلشمنٹ کی حامی جماعت رہی ہے؟

بین الاقوامی تحقیقی کونسل برائے مذہبی امور (آئی آر سی آر اے) مذہبی جماعتوں اور تنظیموں سے متعلق ایک ادارہ ہے جو ان جماعتوں کے کردار اور تحاریک کو قریب سے دیکھتا ہے۔

اس ادارے کے سربراہ اسرار مدنی کا کہنا ہے کہ سابق صدر جنرل ایوب کا دور ہو یا جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں نوابزادہ نصر اللہ خان کی اتحادی تحاریک، جے یو آئی نے اسٹیبلشمنٹ مخالف کردار بھی ادا کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تاپم مولانا سیاست میں اعتدال پسند ہیں۔ وہ کبھی کسی انتہا پر نہیں گئے۔ جب تحریکِ انصاف کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف انہوں نے تحریک چلائی تو کچھ حلقے تو اس پر حیران تھے کہ عمران خان کے بارے میں اُن کا مؤقف اتنا سخت کیوں ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک اسٹیبلشمنٹ اور مولانا فضل الرحمٰن کے تعلقات کا سوال ہے تو اس میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔

خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھنے والے اینکرپرسن اور سینئیر صحافی کاشف الدین سید کئی دہائیوں سے جمیعت علماءے اسلام (ف) کو کور کر رہے ہیں۔ وہ اس جماعت کو جمیعت علمائے ہند کے تسلسل کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد بنیادی طور پر مسلم لیگی رہنما علامہ شبیر احمدعثمانی مرحوم نے دیوبند مکتبِ فکر کے لیے پاکستان میں جمیعت علمائے اسلام کی بنیاد رکھی۔ لیکن یہ تحریک کچھ عرصہ بعد فعال نہیں رہی۔ اس کے بعد مولانافضل الرحمٰن کے والد مفتی محمود آگے بڑھے اور دیوبند مکتب فکر کےپاکستان میں موجود علما کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت جو یو آئی کی سربراہی دیوبند مکتبِ فکر کے نمایاں عالمِ دین مولانا احمدعلی لاہوری کے پاس تھی جب کہ مفتی محمود نے خود جنرل سیکریٹری کی ذمے داری لی۔

کاشف الدین سید کا کہنا ہے کہ مفتی محمود نے پھر جمیعت علمائے اسلام سے مسلم لیگ کی چھاپ ہٹا کر اس کو جمیعت علمائے ہند کی فکر سے جوڑا۔

انہوں نے کہا کہ اس جماعت نے ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کا ساتھ تو نہیں دیا لیکن ایوب خان کی شدید مخالفت کی۔ سابق صدر یحییٰ کی مشرقی پاکستان سے متعلق پالیسیوں کی ڈٹ کر مخالفت کی یہاں تک کہ دھمکیوں کے باوجود اسٹیبلشمنٹ مخالف ڈھاکہ اجلاس میں شرکت بھی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ بعدازاں سابق وزیراعظم بھٹو کے خلاف بھی احتجاجی تحاریک میں قوم پرست رہنما مرحوم خان عبدالولی خان کے ساتھ دیا۔ نوے کے عشرے میں بھی مولانافضل الرحمٰن وقتاً فوقتاً اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپناتے رہے۔

مولانافضل الرحمٰن پر اسٹیبلشمنٹ کی چھاپ کیسے لگی؟

گو کہ مولانافضل الرحمٰن کے سیاسی ناقدین کا ماننا ہے کہ وہ ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نائین الیون کے بعد اس وقت کے صوبہ سرحد اور موجودہ خیبرپختونخواہ میں جس طرح سے سابق فوجی صدر جنرل مشرف نے ان کو حکومت دی اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور مولانا فضل الرحمٰن کا تعلق کھل کر سامنے آگیا۔ ایم ایم اے کو ناقدین نے "ملاملٹری الائنس" کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا۔

کاشف الدین سید کے مطابق ایم ایم اے دور میں جے یو آئی اور اسٹیبلشمنٹ کی قربتیں رہی تھیں لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بطور چیئرمین کشمیر کمیٹی اور خارجہ امور بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مولانافضل الرحمٰن کا ایک قریبی تعلق رہا ہے۔ کیوں کہ یہاں معاملات حساس نوعیت کے ہوتے ہیں اور ظاہری بات ہے کہ مولانا اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک صفحہ پر ہونا ضروری تھا۔

کیا مولانا اسٹیبلشمنٹ مخالف ہو گئے؟

خیبرپختونخوا میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبۂ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر عبدالشکور خطے میں مذہبی جماعتوں کے کردار کے حوالہ سے تحقیق سے منسلک رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مولانافضل الرحمٰن کسی نا کسی صورت اقتدار میں رہیں تو ٹھیک رہتے ہیں۔ لیکن جب وہ احتجاجی سیاست کرتے ہیں تو خاصی مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حزب اقتدار ان کو منانے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ ان کو بھی پتا ہے کہ مولانافضل الرحمٰن کے پاس تنہا اتنی افرادی طاقت موجود ہے جس سے وہ سڑکوں کا ماحول گرم رکھ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالشکور کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی اسٹیبلشمنٹ سے ناراضگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر جماعتوں کی طرح شاید ان سے بھی وعدے وعید کیے گئے ہوں اور اب وہ سمجھتے ہوں کہ یہ وعدے پورے نہیں کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ مستقبل قریب میں مولانا فضل الرحمن آسانی سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف جاتے دکھائی نہیں دیتے۔

تاہم محقق اور آئی ارسی آر اے کے سربراہ اسرار مدنی کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کسی ایسی انتہا پر نہیں جاتے کہ جہاں سے ان کی واپسی ممکن نا ہو لیکن موجودہ صورتحال میں یقیناً وہ جہاں کہیں مناسب سمجھیں گے بھرپور احتجاج کریں گے۔

اینکر پرسن سینئر صحافی کاشف الدین کہتے ہیں کہ جو کچھ مولانافضل الرحمٰن کے ساتھ الیکشن میں ہوا اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے فاصلے بڑھے ہیں اور یہ دوریاں ابھی کچھ عرصے تک موجود رہیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جمیعت علمائے اسلام اپوزیشن میں بیٹھ کر احتجاجی سیاست کو ترجیح دے گی۔

ان کے بقول مولانافضل الرحمٰن سمجھتے ہیں کہ اس وقت عوام میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ مقبول ہے اس لیے بھی وہ خود کو اسٹیبلشمنٹ سے دور ہی رکھیں گے۔

سیاسی حلقوں کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے اس سے قبل بھی پارلیمانی سیاست چھوڑنے کے اشارے دیے تھے تاہم ایم ایم اے کی شکل میں دوبارہ اقتدار تک پہنچے۔اس لیے وہ بھرپور احتجاجی اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے لیکن اس حد تک نہیں جائیں گے کہ ان کے لیے مستقبل میں واپسی کا راستہ بند ہوجائے۔

  • 16x9 Image

    سید فخر کاکاخیل

    سید فخرکاکاخیل دی خراسان ڈائری اردو کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ مختلف مقامی، ملکی اور غیرملکی صحافتی اداروں کے  لیے پشتو، اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ اس سے قبل وہ مختلف ٹی وی چینلز کے ساتھ انتظامی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ زیادہ تر وہ پاک افغان اور وسطی ایشیا میں جاری انتہا پسندی اور جنگ کے موضوعات کے علاوہ تجارتی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب "جنگ نامہ: گلگت سے گوادر اور طالبان سے داعش تک گریٹ گیم کی کہانی" کے نام سے شائع ہوئی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG