افغان حکام اور قبائلی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ داعش نے پاکستان لکڑی سمگل کرنے کے لیے مشرقی افغانستان کے کچھ حصوں میں درختوں کو کاٹنا شروع کر دیا ہے۔
مقامی افغان باشندوں کا کہنا ہے کہ اس شدت پسند تنظیم نے درخت کاٹنے کی مشینیں درآمد کی ہیں اور ننگرہار کے اچین، نازیان اور ده بالا اضلاع میں درخت کاٹ رہی ہے۔
مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ لکڑی سے بھرے ٹرک روزانہ مبینہ طور پر پاکستان بھیجے جا رہے ہیں، جبکہ کاٹی جانے والی کچھ لکڑی افغانستان کی مقامی منڈیوں میں فروخت کر دی جاتی ہے۔
نازیان کے ایک قبائلی رہنما ملک ہاشم نے پاک افغان سرحد کا حوالہ دیتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ڈیورنڈ لائن کے قریبی علاقوں سے اسمگلنگ کی جاتی ہے۔‘‘
قبائلی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اسمگلنگ سے صرف نظر کر رہی ہے۔
اچین کے ایک قبائلی رہنما ملک افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’حکومت نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ داعش کے لیے دلالی کرنے والے مقامی افراد لکڑی منڈیوں تک پہنچاتے ہیں۔
صوبائی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ ابھی انہوں نے درختوں کی کٹائی کا معاملہ مقامی حکومت کے سامنے نہیں اٹھایا۔ تاہم ننگرہار کے زرعی ڈائریکٹوریٹ کے قائم مقام ڈائریکٹر نے کہا کہ انہوں نے ایسی خبریں سنی ہیں مگر دعویٰ کیا کہ درختوں کی کٹائی صرف ایک ضلع میں کی جا رہی ہے۔
انجینئیر شاکر نامی ڈائریکٹر نے کہا کہ ’’دہ بالا وہ واحد ضلع ہے جہاں درختوں کی کٹائی اب بھی جاری ہے اور ہم اسے روکنے کے لیے ضلع کے مقامی عمائدین سے بات کر رہے ہیں۔‘‘
اگرچہ افغانستان میں درختوں کی کٹائی اور لکڑی حاصل کرنا غیر قانونی ہے مگر لکڑی کی اسمگلنگ کئی دہائیوں سے جاری ہے، خصوصاً ننگرہار کے پڑوس میں واقع کنڑ صوبے میں۔
افغانستان میں ماحولیات کے تحفظ کے ادارے کے مطابق ملک کا صرف دو فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں سالانہ لگ بھگ 49 ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلے جنگلات ختم ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماحولیات کے پروگرام کے مطابق پچھلی تین دہائیوں میں افغانستان میں جنگلات کی تعداد 50 فیصد تک کم ہوئی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ طالبان سمیت کئی شدت پسند گروہ لکڑی کے غیر قانونی کاروبارمیں ملوث رہے ہیں۔