پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے ملکی وسائل کی صوبوں کے درمیان منصفانہ تقسیم کے بعد، ’صوبائی حکومتیں اس قابل ہیں کہ وہ اپنے طور پر معاشی بہتری کے لئے کام کر سکیں‘۔
انھوں نے کہا ہے کہ حکومت ایسی آئینی ترامیم لانے کا منصوبہ رکتھی ہے جس کے بعد آنے والی حکومتیں معاشی اصلاحات کے تسلسل میں رکاوٹ پیدا نہ کر سکیں۔
واشنگٹن کی تھینک ٹینک، ’کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس‘ میں جمعرات کی صبح شرکا سے خطاب میں، اسحاق ڈار کہنا تھا کہ حکومت نے معاشی اصلاحات کے لئے عالمی بینک کے تمام 12 درجات عبور کر لئے ہیں، جس کے نتیجے میں، پاکستانی معشیت میں استحکام آیا ہے اور قومی خزانے میں 17 ارب ڈالر موجود ہیں، جو آئندہ چند ماہ میں 18 ارب ڈالر کی حد عبور کرلے گا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے تین روزہ سمر اجلاس میں شرکت کے لئے واشنگٹن پہنچے ہیں، جہاں وہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور امریکی حکام کے علاوہ دوست ممالک کے وزراء خزانہ سے بھی ملاقات کریں گے، اور انھیں پاکستان کی معاشی صورتحال پر بریفنگ دیں گے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ گذشتہ برس جون تک پاکستان کی معاشی صورتحال تسلی بخش نہ تھی۔ لیکن، حکومت نے اصلاحات کے حوالے سے بعض غیر مقبول فیصلے بھی کئے، جس کا نتیجہ ہیہ ے کہ آج پاکستانی کرنسی مستحکم ہے، شرح نمو چار اعشاریہ چھ ہو چکی ہے، جبکہ آئندہ برس مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح پانچ فیصد تک کی توقع ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کی معشیت کا 21 فیصد زراعت سے وابستہ ہے۔ لیکن، اس شعبے سے حکومت کو صرف ایک ارب ڈالر کی آمدن ہوتی ہے۔ تاہم، حکومت کی ٹیکس اصلاحات کے نتجے میں، ریونیو کلکشن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
وزیر خزانہ نے ایک سوال پر کہا کہ چین کے ساتھ ’اکنامک کوریڈور‘ کی تکمیل سے صرف پاکستان یا چین نہیں، ’بلکہ پورے خطے کی معاشی صورتحال میں انقلاب برپا ہوگا‘۔