بھارت کے مرکزی تفتیشی گروپ (سی بی آئی) نے 2004ء کے عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر معاملے میں گجرات کے 20پولیس والوں کے خلاف تازہ ایف آئی آر درج کی ہے۔ اُن تمام پر قتل اور ثبوت مٹانے کی دفعات لگائی گئی ہیں۔
ملزمین میں کانسٹیبل سےلے کر اُس وقت کے گجرات پولیس کمشنر تک شامل ہیں۔
گجرات ہائی کورٹ کے مقرر کردہ خصوصی تفتیشی بینچ نے جمعرات کے روز سی بی آئی میں اپنی شکایت پیش کی تھی۔اِس سے قبل ، اُس نے ہائی کورٹ کو اپنی رپورٹ دی تھی جِس میں کہا گیا تھا کہ ممبئی کی عشرت جہاں کا انکاؤنٹر فرضی تھا اور پولیس نے عشرت جہاں، جاوید شیخ، امجد علی رانا اور ذیشان جوہر کو ایک منصوبے کے تحت احمد آباد میں ہلاک کیا تھا۔
میٹروپولیٹن مجسٹریٹ نے بھی اِس تمام واقع کی جوڈیشل انکوائری کی تھی اور اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ عشرت جہاں اور اُس کے ساتھیوں کو فرضی انکاؤنٹر میں مارا گیا تھا اور اِس پوری سازش میں 21پولیس والے شامل تھے۔
اُنھوں نے اُس وقت کے کرائم برانچ کےچیف پی پی پانڈے ، معطل ڈی آئی جی ڈی جی ونزارا، اُس وقت کے اے سی پی جی ایل سنگھل اور اے سی پی این کے امین کو اُس قتل کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔
ونزارا اور امین کے علاوہ سہراب الدین اور کوثر بھی فرضی انکاؤنٹر معاملے میں جیل میں بند ہیں۔
انکاؤنٹر کے بعد گجرات پولیس نے کہا تھا کہ عشرت جہاں اور اُس کے ساتھی لشکرِ طیبہ کے دہشت گرد تھے، اور نریندر مودی کو ہلاک کرنے کی نیت سے گجرات آئے تھے۔