پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے امریکہ مخالف عسکری تنظیم حقانی نیٹ ورک کے بعض ارکان سے اپنے ادارے کے رابطوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا مقصد افغانستان میں گزشتہ ایک دہائی سے جاری جنگ کے خاتمے اور وہاں قیام امن کی کوششوں کو فروغ دینا ہے۔
اُنھوں نے یہ انکشاف جمعرات کی سہ پہر اسلام آباد میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی دعوت پر بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بند کمرے میں ہونے والے اس اجلاس میں ملک کی 32 سیاسی جماعتوں کے پچاس سے زائد قائدین نے شرکت کی اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے علاوہ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں بھی موجود تھے۔
جمعرات کو رات دیر گئے ختم ہونے والی ’کل جماعتی کانفرنس‘ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے وزیر اطلاعات فردوس عاشق ایوان نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ نے شرکا کو بتایا کہ ان کا ادارہ حقانی نیٹ ورک میں شامل صرف اُن عناصر سے رابطے میں ہے جن کا تشدد کی کارروائیوں سے کوئی تعلق نہیں۔
وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ حقانی نیٹ ورک سے منسلک افراد کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں سیاسی رہنماؤں کو آگاہ کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے سربراہ نے واضح الفاظ میں تصدیق کی کہ شمال مغربی علاقے بنوں، وزیرستان کی قبائلی پٹی اور ملک کے بعض دیگر علاقوں میں اس افغان تنظیم سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے اہل خانہ مقیم ہیں۔
’’ان افراد سے رابطوں کا مقصد خفیہ معلومات کا حصول ہے لیکن ان لوگوں کا افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان کے کسی ادارے کا القاعدہ سے منسلک حقانی گروپ کے اُن عسکریت پسندوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جو افغانستان میں مقامی و غیر ملکی اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔‘‘
کانفرنس کے اختتام پر متفقہ طور پر منظور کی گئی 13 نکاتی قراداد میں بھی امن اور مفاہمت کا عمل شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’قبائلی علاقوں میں اپنے لوگوں سے امن کے لیے مذاکرات شروع کیے جائیں۔‘‘
یہ مجوزہ لائحہ عمل امریکہ کی جانب سے شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے کے زور پکڑتے ہوئے مطالبات کے بالکل منافی ہے۔
امریکی فوجی حکام کی طرف سے آئی ایس آئی پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کے الزامات کے بعد پاکستان کے سیاسی حلقوں اور ذرائع ابلاغ میں یہ قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف شمالی وزیرستان میں امریکہ براہ راست کارروائی کی تیاری کررہا ہے۔
لیکن وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے متبنہ کیا کہ ایسا کوئی بھی اقدام دو طرفہ تعلقات اور افغانستان میں امن کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
’’کل جماعتی کانفرنس شریک تمام سیاسی جماعتوں نے کسی بھی ایسی جارحیت کے خلاف حکومت اور فوج کو اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانئی کرائی ہے کیونکہ پاکستانی عوام کے لیے ایسی یکطرفہ فوجی کارروائی قابل قبول نہیں۔‘‘
کُل جماعتی کانفرنس میں امریکی الزامات اور پاکستان کی سلامتی کو لاحق ممکنہ خطرات کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
آئی ایس آئی کے خلاف براہ راست الزامات کے بعد امریکی عہدے دار کی طرف سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات سے متعلق بیانات نے ان خدشات کو تقویت دی کہ امریکہ شمالی وزیرستان پر یکطرفہ فوجی کارروائیاں کر سکتا ہے۔
وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان نے ایک بار پھر کہا کہ اگر امریکہ کے پاس اپنے الزامات کے ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد موجود ہیں تو انھیں منظر عام پر لائے تاکہ پاکستان اس سلسلے میں مناسب کارروائی کرے۔
’’میڈیا کےذریعے بیانات دینے سے پاکستان کی سیاسی قیادت کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ایسی پالیسی ملک میں امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکاتی ہے اور ان حالات میں لوگو ں کو پر امن رکھنا حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ‘‘
اجلاس میں شامل پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے صحافیوں کو بتایا کہ متفقہ قرار داد میں فوجی حل کی بجائے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کی حل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
’’آئی ایس آئی جنرل پاشا نے ہمیں پوری بریفنگ دی ہے، حقانی نیٹ ورک کے بھی کوئی تین گروپ ہیں، حقانی کی عسکری شاخ سے آئی ایس آئی کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر وہ ہے تو وہ ان کی جو اور شاخیں ہیں جن کے ذریعے صرف مذاکرات ہو سکتے ہیں عسکری شاخ سے کوئی نہیں ہے۔‘‘
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بھی کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ نے واضح الفاظ میں حقانی نیٹ ورک کے ان جنگجوؤں سے اپنے ادارے کے تعلق کی تردید کی جو افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف سرگرم عمل ہے۔
’’امن کے لیے مستقبل کے افغانستان کے معاملات کے لیے اگر حقانی نیٹ ورک کے پولیٹیکل سل سے کوئی بات چیت کر رہے ہیں تو وہ مستقبل کے افغانستان کے لیے ہیں۔‘‘
عمومی طور پر فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے والے سیاست دانوں کی طرف سے کل جماعتی کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کی طرف سے اپنائی گئی حکمت عملی اور آئی ایس آئی کی افغان پالیسی کی حمایت بلا شبہ غیر معمولی تھی۔
جمعہ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف نے کہا کہ حالیہ امریکی الزامات کے محرکات پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اُنھوں نےدہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت کے بعد ملک کو ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ (امریکہ) ہمیں کل تک اپنا اہم اتحادی قرار دیتا تھا، لیکن ایسا کیوں کہ ہم پھر بھی آج کٹہرے میں کھڑے ہیں، ایسا کیوں کہ ہمیں پھر بھی دھمکیاں مل رہی ہیں، اور پھر ایسا کیوں کہ ہم دنیا میں تنہا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘