مذہبی بنیادوں پر امتیاز برتنے کےمعاملے پر اقوام متحدہ کی طرف سے مذمتی قرارداد منظور ہونے پر، اسلامی ملکوں کی تنظیم (او آئی سی) نے مذہبی منافرت کے خلاف بین الاقوامی معاہدہ طے پانے کے لیے کی جانے والی کوششیں ترک کردی ہیں۔
کئی برسوں سے 57 ارکان پر مشتمل مسلمان ممالک کی یہ تنظیم ایک ایسےمعاہدے تک پہنچنے کی کوششں کرتی رہی ہے جس کے تحت اسلام اور دیگر مذاہب کی توہین پر بندش لگائی جاسکے۔
افق گوکسن اقوام متحدہ میں او آئی سی کے مستقل مندوب ہیں، جنھوں نے اِس سلسلے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
لیکن، واشنگٹن میں ’وائس آف امریکہ‘ کے ہیڈکوارٹرز میں دیے گئےایک انٹرویو میں تُرک سفارتکار نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی طرف سے گذشتہ برس قرارداد نمبر 16/18منظور کیے جانے کے بعد، اب او آئی سی کو اِس معاملے میں اطمینان ہوگیا ہے۔
اُن کے بقول، وہ نہیں سمجھتے کہ مذہب کی توہین اور منافرت کے بارے میں ماضی کے تنازع کو جاری رکھنے کی اب کوئی گنجائش باقی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ قرارداد16/18میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ آزادی اظہار کا حق مذہبی ہم آہنگی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
گوکسن نے اِس بیان کو درست قرار دیا۔
اُن کے بقول، اقوام متحدہ کی اِس قرارداد کی رو سے یہی کچھ حاصل ہوا ہے۔
امریکی آئین کی پہلی ترمیم آزادی اظہار کو تحفظ فراہم کرتی ہے، جس میں مذہب کی توہین سے اجتناب کا معاملہ شامل ہے۔
گوکسن نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرارداد کے ذریعے امریکی حکام کو مسلم مخالف انٹرنیٹ وڈیو کو واپس لینے سے احتراز کرنا پڑا جو امریکہ میں تیار ہوئی اور جس کے باعث حالیہ دنوں میں مسلمان ممالک میں تشدد کے واقعات کا ایک سلسلہ جاری رہا۔
او آئی سی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ تنظیم کو عرب اخبارات اور نصابی کتابوں میں یہودیوں کے خلاف نسل پرستی پر مبنی باتیں چھاپنے سے اجتناب اور ساتھ ہی کچھ مسلمان اکثریتی ممالک میں عیسائیوں کے خلاف حملوں سے احتراز کرنے سے متعلق کوششیں کرنی چاہئیں۔
گوکسن نے کہا کہ تنظیم یہود اور عیسائی مخالف تعصب کے معاملے کو بھی اُسی سنجیدگی سے لیتی ہے جس انداز سے اسلام کی توہین کےمعاملے پر آواز بلند کی جاتی ہے۔
کئی برسوں سے 57 ارکان پر مشتمل مسلمان ممالک کی یہ تنظیم ایک ایسےمعاہدے تک پہنچنے کی کوششں کرتی رہی ہے جس کے تحت اسلام اور دیگر مذاہب کی توہین پر بندش لگائی جاسکے۔
افق گوکسن اقوام متحدہ میں او آئی سی کے مستقل مندوب ہیں، جنھوں نے اِس سلسلے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
لیکن، واشنگٹن میں ’وائس آف امریکہ‘ کے ہیڈکوارٹرز میں دیے گئےایک انٹرویو میں تُرک سفارتکار نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی طرف سے گذشتہ برس قرارداد نمبر 16/18منظور کیے جانے کے بعد، اب او آئی سی کو اِس معاملے میں اطمینان ہوگیا ہے۔
اُن کے بقول، وہ نہیں سمجھتے کہ مذہب کی توہین اور منافرت کے بارے میں ماضی کے تنازع کو جاری رکھنے کی اب کوئی گنجائش باقی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ قرارداد16/18میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ آزادی اظہار کا حق مذہبی ہم آہنگی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
گوکسن نے اِس بیان کو درست قرار دیا۔
اُن کے بقول، اقوام متحدہ کی اِس قرارداد کی رو سے یہی کچھ حاصل ہوا ہے۔
امریکی آئین کی پہلی ترمیم آزادی اظہار کو تحفظ فراہم کرتی ہے، جس میں مذہب کی توہین سے اجتناب کا معاملہ شامل ہے۔
گوکسن نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرارداد کے ذریعے امریکی حکام کو مسلم مخالف انٹرنیٹ وڈیو کو واپس لینے سے احتراز کرنا پڑا جو امریکہ میں تیار ہوئی اور جس کے باعث حالیہ دنوں میں مسلمان ممالک میں تشدد کے واقعات کا ایک سلسلہ جاری رہا۔
او آئی سی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ تنظیم کو عرب اخبارات اور نصابی کتابوں میں یہودیوں کے خلاف نسل پرستی پر مبنی باتیں چھاپنے سے اجتناب اور ساتھ ہی کچھ مسلمان اکثریتی ممالک میں عیسائیوں کے خلاف حملوں سے احتراز کرنے سے متعلق کوششیں کرنی چاہئیں۔
گوکسن نے کہا کہ تنظیم یہود اور عیسائی مخالف تعصب کے معاملے کو بھی اُسی سنجیدگی سے لیتی ہے جس انداز سے اسلام کی توہین کےمعاملے پر آواز بلند کی جاتی ہے۔