اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر مذہبی جماعت کے دھرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ لگتا ہے ‘چند شرپسندوں نے جڑواں شہروں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
منگل کی شام جاری ہونے والے اس تحریری حکم نامے میں قرآن کی مختلف آیات اور احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ لگتا ہے کہ چند شرپسندوں نے راول پنڈی اسلام آباد کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ حکومت بظاہر مفلوج ہو چکی ہے اور مظاہرین سے راستہ کلیئر نہیں کراپا رہی۔ اس صورت حال کی وجہ سے عوام ودفاتر، اسکولز اور عدالتوں میں آنے جانے میں مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ اطلاعات کے مطابق ایمبولینسزاور مریضوں کو بھی راستہ نہیں مل پا رہا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ دھرنے کے قائدین گالم گلوچ اور قابل اعتراض زبان استعمال کررہے ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ معاملہ عوامی نوعیت کا ہے،جس کی وجہ سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں جو آئین کے آرٹیکل 9،15 اور 25 اے کے تحت انہیں آزادانہ نقل و حرکت، آزادانہ زندگی اور تعلیم کا حق دیتے ہیں۔
عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہونے پر عدالت کو آرٹیکل 184(3) کے تحت نوٹس لینا پڑا۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ دھرنا بظاہر ایک مذہبی مقصد کے لئے ہے، لیکن اس مقصد کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ سمیت کسی عدالت سے رجوع نہیں کیا گیا۔ قانون ہاتھ میں لینا اور تفرقہ ڈالنا قرانی تعلیمات کے خلاف ہے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور نبی کریم نےنفرت پھیلانے سے منع فرمایا،موجودہ صورتحال میں سوال اٹھتا ہے کہ دھرنے سے اٹھنے والی آوازیں آئین وشریعت کے خلاف ہیں یا نہیں؟،
عدالت نے سیکرٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ اور اٹارنی جنرل کونوٹسز جاری کردیے ہیں، جبکہ حساس اداروں بشمول آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو کواٹارنی جنرل کے ذریعے جواب جمع کروانے کا حکم دیا گیا ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ بتایا جائے عوام کے حقوق متاثر ہونے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کئے گئے۔ ،یہ از خود نوٹس ابراہیم ستی ایڈووکیٹ کی جانب سے التوا کی درخواست دائر کرنے پر لیا گیا جب انہوں نے کہا کہ رہائش دھرنے کے قریب ہونے کے باعث حاضر نہیں ہوسکتا۔
کیس کی آئندہ سماعت 23نومبرکو ہوگی۔
اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر مذہبی جماعت تحریک لبیک یارسول اللہ کا دھرنا 16 روز سے جاری ہے جس کی وجہ سے جڑواں شہروں کے عوام کو شديد مشکلات کا سامنا ہے۔ دونوں شہروں کے درمیان روزانہ 8 لاکھ لوگ ملازمتوں، تعلیم اور دیگر امور کے لیے سفر کرتے ہیں لیکن یہ مرکزی شاہراہ بند ہونے سے شہری شديد پریشانی کا شکار ہیں اور حکومت کی اب تک کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔