وفاقی حکومت نے ضلعی انتظامیہ کو فیض آباد انٹر چینج پر دھرنے میں موجود مذہبی جماعتوں کے خلاف آپریشن 24 گھنٹے تک موخر کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ہائیکورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد قانونی تقاضا ہے، مذہبی رہنما اور مشائخ کرام اپنا کردار ادا کریں۔
"امید ہے معاملات احسن طریقے سے نمٹ جائیں گے، 24 گھنٹے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کہ حکم پرعمل درآمد کرانا شروع کریں گے۔"
وزیر داخلہ احسن اقبال کی جانب سے آپریشن موخر کرنے کا اعلان، اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد انٹر چینج پر دھرنے میں موجود مظاہرین کو ہٹانے کی ہفتہ کو دس بجے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے آدھا گھنٹہ قبل سامنے آیا۔
وزیر داخلہ نے اپنے بیان میں کہا کہ مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری ہے اور اہم سیاسی اور مذہبی شخصیات بات چیت کا حصہ ہیں۔ انہوں نے مذہبی رہنماؤں اور مشائخ کرام سے کردار ادا کرنے کی اپیل کی اور ساتھ ہی امید بھی کی کہ معاملات احسن طریقے سے نمٹ جائیں گے۔
ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ رات گئے "ہم دھرنا شرکا کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے پیش رفت نہیں ہوئی، مظاہرین بھی ہمارے بھائی ہیں، ہم کسی قسم کا ٹکراؤ نہیں چاہتے، ہم نہیں چاہتے کہ یہاں کوئی خون خرابا ہو، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہمیں آج تک کی مہلت دے رکھی ہے، ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کروانا قانونی تقاضا ہے۔ چوبیس گھنٹے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پرعمل درآمد کرانا شروع کریں گے۔"
وزیر داخلہ نے کہا کہ تحفظ ختم نبوت قانون پاس ہونا پارلیمنٹ کا تاریخی کارنامہ ہے، اب دھرنے کا جواز نہیں رہا۔ "ختم نبوت قانون میں قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں لاسکے گا، ضد کا انجام جشن عید میلادالنبی کے ماحول کو کشیدہ کرے گا، قوم کا حق ہے کہ امن کی فضا میں عیدمیلادالنبی پورے جوش وخروش سےمنائے۔"
فیض آباد پر صورتحال تاحال کشیدہ ہے جہاں پولیس، ایف سی اور رینجرز کے چھ ہزار اہلکار تعینات ہیں۔ فیض آباد اورمضافات کی مارکیٹیں، تعلیمی ادارے بند ہیں۔ اسپتال ہائی الرٹ پر ہیں جب کہ ڈاکٹرز، نرسزاور پیرا میڈیکل اسٹاف کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں۔
مذہبی جماعتوں نے فیض آباد انٹرچینج پر گزشتہ 13 روز سے دھرنا دے رکھا ہے۔ دھرنے کے شرکا ختم نبوت سے متعلق آئینی شقوں میں ردو بدل کرنے والوں کے خلاف کارروائی اور وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔