اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں مذہبی و سیاسی جماعت 'تحریکِ لبیک یا رسول اللہ' کا دھرنا ختم کرانے کے عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال کو توہینِ عدالت سے متعلق شو کاز نوٹس جاری کر دیا ہے۔
اس سے قبل پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیرِ داخلہ کو طلب کیا تھا جہاں اُنھوں نے عدالت سے 48 گھنٹوں کے مزید مہلت مانگتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ اس مسئلے کا حل تلاش کر لیا جائے گا۔
لیکن اب تک مذاکرات کے ذریعے اس دھرنے کو ختم کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور اس میں کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
جمعے کو سماعت کے موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیقی نے استفسار کیا کہ اب تک دھرنے دینے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟
دو شہریوں کی طرف سے عدالت میں دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیرِ داخلہ کو عدالتی احکامات پر عمل نہ کرانے پہ شو کاز نوٹس جاری کر دیا۔
سیکرٹری داخلہ نے سماعت کے موقع پر رپورٹ عدالت میں پیش کی تاہم عدالت نے وزیرِ داخلہ کو 27 نومبر کو خود پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
سماعت کے موقع پر جج نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں فیض آباد میں دھرنے کے پیچھے ہیں۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو اور آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر کو ذاتی طور پر 27 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا کہا ہے۔
اس سے قبل جمعرات کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے بھی انٹیلی جنس ایجنسوں کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس معاملے میں سنجیدگی دکھائیں۔
جمعے کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا عدالت یہ نہیں کہہ رہی کہ مظاہرین پر گولیاں چلا دیں لیکن اُنھیں منتشر کرنے کے دیگر طریقے استعمال ہو سکتے ہیں جن میں آنسو گیس کا استعمال بھی شامل ہے۔
عدالت نے حکومت کو ختمِ نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی سے متعلق سینیٹر راجہ ظفر الحق کی قیادت میں بننے والی کمیٹی کی تیار کردہ رپورٹ بھی 27 نومبر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ اگر اس رپورٹ میں کسی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اُس کا نام شامل کیا گیا ہے تو اُس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا جائے۔
گزشتہ 19 دن سے فیض آباد میں مذہبی و سیاسی جماعت 'تحریکِ لبیک یا رسول اللہ' کی قیادت میں جاری اس دھرنے میں سنی تحریک بھی شامل ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کاغذاتِ نامزدگی میں ختمِ نبوت سے متعلق حلف میں مبینہ تبدیلی پر وزیرِ قانون زاہد حامد کو برطرف کرے تو مزید بات چیت کی جا سکتی ہے۔ لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ اس معاملے سے وزیرِ قانون کا براہ راست کوئی تعلق نہیں۔
وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے جمعرات کی شام اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ایسے عناصر جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ’’ریاست کو بے بس کر سکتے ہیں، وہ ریاست کو بے بس نہیں کر سکتے۔۔۔ ریاست ان لوگوں کے آگے سرینڈر نہیں کرے گی۔‘‘
اُنھوں نے ایک بار پھر کہا کہ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ کسی بھی طرح کی کارروائی سے جانی نقصان نہ ہو۔
فیض آباد انٹر چینج پر جاری دھرنے سے جڑواں شہروں کی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔