اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم اور سیکیورٹی اداروں پر برہمی کے اظہار کے بعد چند روز قبل لاپتا ہونے والے شخص کو 20 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ حسیب حمزہ نامی شہری کا کہنا ہے کہ اُنہیں نہیں معلوم کہ اُنہیں کس نے اُٹھایا اور کہاں رکھا۔
عدالت نے حسیب حمزہ کو لاپتا کرنے کے واقعے کی مکمل تحقیقات اور ذمے داروں کا تعین کر کے 10 روز میں رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کر دی۔
خیال رہے کہ منگل کو لاپتا شخص کے والد کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکیورٹی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مذکورہ لاپتا شخص کو 24 گھنٹوں میں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
اسلام آباد میں چٹھہ بختاور کے علاقے سے حسیب نامی شخص کو مبینہ طور پرنامعلوم افراد اغوا کر کے لے گئے تھے جس کے بعد ان کے والد نے 23 اگست کو تھانہ شہزاد ٹاؤن میں اندراج مقدمہ کی درخواست دی۔ پولیس نے اس درخواست پر کوئی ایکشن نہیں لیا اور 12 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کیے جانے کے بعد اسلام آباد پولیس نے مقدمہ درج کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتا شہری حسیب حمزہ کی بازیابی درخواست پر سماعت کی۔ حسیب حمزہ عدالتی حکم پر بازیابی کے بعد عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز میں عدالت کو بتایا گیا کہ حسیب حمزہ اپنے گھر واپس آ چکا ہے، درخواست گزار ذوالفقار علی نے عدالت کو بتایا کہ میرا بیٹا واپس آ گیا ہے، آج صبح اس کی کال آئی تھی کہ قریبی اسپتال کے پاس کھڑا ہوں۔
چیف جسٹس نے حسیب حمزہ سے استفسار کیا کہ آپ کدھر گئے تھے؟ اس پر حسیب حمزہ نے بتایا مجھے معلوم نہیں، میری آنکھوں پر پٹی بندی ہوئی تھی۔
چیف جسٹس نے پولیس حکام کو مخاطب کر کے کہا آپ نے اب تک کیا تفتیش کی؟ آپ نے تو بروقت ایف آئی آر بھی درج نہیں کی۔ حبسِِ بے جا کی درخواست ہے، یہ اب واپس آ گئے ہیں لیکن آپ نے تفتیش میں کسی کو تو ذمہ دار ٹھہرانا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کو مغوی کے والد کی درخواست پر فوری ایکشن لینا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا جو عدالتی فیصلوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ یہ عدالت آئین اور قانون کے علاوہ تو کچھ نہیں کر سکتی۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد کو ہدایات دی ہیں کہ کوئی پولیس کے پاس جائے تو فوری کارروائی ہونی چاہیے۔
عدالت نے کہا اس کو کس نے اٹھایا تھا؟ اس کی تحقیقات کون کرے گا؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا اگر یہ کسی کی شناخت کرے کہ اسے کس نے اٹھایا تھا تو پھر کارروائی آگے بڑھائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا اس کو ایسا نہ کہیں۔ یہ تو کہہ رہا ہے کہ میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔
اس پر حسیب حمزہ کے والد ذوالفقار علی نے کہا میرا مسئلہ بیٹے کا اغوا ہونا تھا، وہ واپس آ گیا، میں مطمئن ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ مطمئن کیسے ہو سکتے ہیں؟ آپ کی درخواست پر تو پولیس کارروائی ہی نہیں کر رہی تھی۔
عدالت نے کہا 10 روز میں نوجوان کے لاپتا ہونے کی تفتیش آئی جی پولیس اپنی نگرانی میں کرائیں اور رجسٹرار آفس کے پاس رپورٹ جمع کرائیں۔ نوجوان کو لاپتا کرنے والے اور غفلت برتنے والے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ عدالت نے کہا توقع ہے ماضی کے کیسز کے برعکس اتھارٹیز اپنا آئینی فریضہ نبھائیں گی۔
حسیب حمزہ نامی نوجوان کے لاپتا ہونے پر 12 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس پر منگل کو سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکم دیا کہ 24 گھنٹوں کے اندر اسے عدالت میں پیش کریں بصورت دیگر اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور تمام حساس اداروں کے سیکٹر کمانڈر عدالت میں پیش ہوں۔
اس حکم کے بعد بدھ کی صبح اسلام آباد پولیس کی طرف سے ایک ٹویٹ کی گئی جس میں بتایا گیا کہ حسیب حمزہ اپنے گھر واپس پہنچ چکے ہیں۔
لاپتا شخص کا ایسے واپس آنا مثبت پیش رفت ہے: زہرہ یوسف
پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکن جبری گمشدگیوں اور شہریوں کو عدالتوں میں پیش کیے بغیر کئی روز تک غائب کرنے کے معاملات پر عرصۂ دراز سے تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی کارکن زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ عدالت کی جانب سے سختی کرنے پر لاپتا شخص کی بازیابی مثبت پیش رفت ہے۔ اسی طرح ملک میں لاپتا دیگر افراد کی بازیابی بھی ممکن بنائئ جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر لاپتا شخص کو پیش کر دیا گیا، ورنہ اس سے قبل سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود بھی لاپتا افراد کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا تھا۔
اُن کے بقول جب سابق چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کی عدالت میں یہ معاملات زیرِ سماعت تھے تو کئی مرتبہ فوج اور وزارتِ دفاع کے نمائندوں کو بلایا گیا، لیکن کوئی بھی پیش نہیں ہوا۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر ایک شخص کو اتنی جلدی بازیاب کرا لیا گیا ہے تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اگر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اتنے سخت احکامات نہ دیتے تو شاید کئی برس تک یہ شخص عدالت میں پیش نہ ہوتا۔
زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ اقوامِ متحدہ نے کئی برس قبل ایک ٹاسک فورس بنا کر جبری گمشدگیوں کے سدِ باب کے لیے ایک کنونشن پر پاکستان سے بھی دستخط کا کہا تھا۔ پاکستان نے اس پر دستخط تو نہیں کیے، البتہ اس حوالے سے قانون سازی کا مسودہ بھی پارلیمنٹ سے 'لاپتا' ہو گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیئں کہ مذکورہ شخص اتنے روز کہاں رہا اور اس کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا گیا، تاکہ ذمے داروں کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔
جبری گمشدگیوں کے کمیشن کی رپورٹ
جبری گمشدگیوں کے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق رواں سال 30 جون تک لاپتا افراد کی کل تعداد 2ہزار 219 ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ مئی 2022 تک کمیشن کے پاس 8ہزار696 کیسز آئے جن میں سے رواں سال جون میں 36 نئے کیس آئے۔ مئی 2022 تک 6ہزار 458 کیسز ختم کردیے گئے ہیں اور اب ان کیسز کی تعداد 2ہزار 219 ہے۔
یہ اعداو و شمار جبری گمشدگی کے حوالے سے قائم کمیشن کی طرف سے جاری کیے گئے ہیں تاہم انسانی حقوق سے متعلق کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
پاکستان کے وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے نو ستمبر کو کوئٹہ کے دورے کے دوران لاپتا افراد کے لواحقین سے ملاقات کی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ تمام لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ وہ لاپتا افراد کے لواحقین کے غم میں شریک ہونے اور ان سے اظہار یکجہتی کے لیے کوئٹہ آئے ہیں۔
رانا ثنااللہ اور وفاقی کابینہ کی کمیٹی کے ارکان کی یقین دہانی کے بعد کوئٹہ میں مظاہرین نے ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری اپنا احتجاجی دھرنا ختم کردیا تھا۔
رواں ماہ وزیراعظم شہباز شریف بھی اسلام آباد ہائی کورٹ پیش ہوئے تھے جہاں انہوں نے اس مسئلہ کے حل کے لیے ہرممکن کوشش کی یقین دہانی کروائی تھی۔