حقوق انسانی کی ایک غیر جانبدار تنظیم ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ نے وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اسلام آباد میں وزیرستان سے آئے ہوئے افراد کے جاری احتجاج کا نوٹس لے۔
کراچی میں گزشتہ ماہ ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کیے گئے قبائلی نوجوان نقیب اللہ کے قتل کے خلاف اسلام آباد میں پہنچنے والے محسود قبائل کا احتجاج منگل کو مسلسل چھٹے روز بھی جاری ہے۔
مظاہرے میں شریک افراد نقیب اللہ کے قتل کے ملزم کراچی پولیس کے روپوش افسر راؤ انوار سمیت دیگر افراد کی جلد گرفتاری اور اُن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایچ آر سی پی نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ وزیرستان سے آئے ہوئے ان مظاہرین کے بارے میں حکومت کی عدم توجہ مایوس کن ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ایچ آر سی پی پہلے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ایسے واقعات کی نشاندہی کرتی رہی ہے۔
ایچ آر سی پی کی طرف سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ غیر قانونی طور پر حراست میں لینے، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف غیر جانبدارانہ تفتیش کی ضرورت ہے۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے وفاقی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ مظاہرہ کرنے والے افراد کے جائز اور قانونی مطالبات کو فوری طور پر دیکھے اور اُن پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائے۔
ایچ آر سی پی کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ قبائلی علاقے جہاں سے دہشت گردوں کا صفایا کیا گیا ہے وہ اب واپس جانے والے قبائلیوں کے بالکل محفوظ ہیں۔
تنظیم کی طرف سے کہا گیا کہ جنوبی وزیرستان اور فاٹا کے دیگر علاقوں میں بارودی سرنگوں کے دھماکوں میں ہونے والا جانی نقصان باعث تشویش ہے۔
اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دینے والے شیرزادہ خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُن کے مطالبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قبائلی علاقوں میں بچھی بارودی سرنگوں کا صفایا جائے۔
مظاہرے میں شریک ایک منتظم نور رحمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کے بعض نمائندوں نے پیر کی شب آ کر اُن سے ملاقات کی تھی جس میں یہ طے پایا تھا کہ مظاہرین کا ایک نمائندہ وفد منگل کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کرے گا جس میں اُن کے مطالبات پر غور کیا جائے گا۔