پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے مبینہ پولیس مقابلے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کے کیس میں سابق پولیس عہدیدار راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس کو آئندہ جمعرات تک کی مہلت دی ہے۔
رواں ماہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کراچی میں ہونے والے ایک ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے تھے اور راؤ انوار نے انھیں مطلوب دہشت گرد قرار دیا تھا۔ تاہم بعد ازاں ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ اس نقیب اللہ کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس معاملے کے از خود نوٹس کی سماعت ہفتہ کو سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی جس کے سامنے سندھ پولیس کے سربراہ اے ڈی خواجہ، اے آئی جی کاونٹرٹریزرم ثنااللہ عباسی، ڈی آئی جی ساؤتھ آزاد خان ودیگر متعلقہ حکام پیش ہوئے۔
دوران سماعت پولیس نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ چیف جسٹس کے استفسار پر آئی جی سندھ نے جواب دیا کہ راؤ انوار مفرور ہیں جن کی گرفتاری کے لیے کوشش کی گئی لیکن تاحال انھیں حراست میں نہیں لیا جا سکا ہے۔
اس پر بنچ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ہمیں کہانی مت بتائیں ہمارے لیے شہری کی زندگی زیادہ عزیز ہے اور راؤانوار کو ہر صورت پیش ہونا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے کہا آپ آزادی سے کام کریں اور کسی کے دباؤ میں نہ آئیں۔ ان کہنا تھا کہ کیا ایسا تونہیں کہ راؤ انوار ایسی جگہ پر ہوں جہاں آپ کی بھی پہنچ نہیں؟ بینچ نے راؤ انوار کو پیش کرنے کے لئے آئندہ جمعرات تک کی مہلت دیدی۔
اس موقع پر چیف جسٹس نےاپنے ریمارکس میں کہا کہ نقیب اللہ محسود قوم کا بچہ تھا وہ ہمارا بچہ تھا ریاست میں قتل عام کی اجازت نہیں دی جاسکتی.
دوران سماعت چیف جسٹس نے نقیب اللہ کے والد محمد خان محسود کوبھی روسٹرم پربلایا نے جنہوں نے پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انصاف کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کی استدعا کی، جس پرچیف جسٹس نے کہا پولیس میں اچھے افسران موجود ہیں آپ آئی جی اورجے آئی ٹی پربھروسہ رکھیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے کسی نجی طیارے میں سفرتونہیں کیا؟ جس پر سول ایوی ایشن حکام نے بتایا کہ ان کے پاس چھ سے زائد مختلف کمپنیوں کے چارٹرڈ طیارے رجسٹرڈ ہیں۔ بینچ نے کہا کہ راؤ انوار نے ان طیاروں میں گزشتہ پندرہ روزمیں سفرکیا یا نہیں اور ایوی ایشن حکام سے حلف نامے جمع کرانے کا حکم بھی دیا۔
چیف جسٹس نے راؤ انوار سے متعلق سیکرٹری داخلہ سے بھی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتایاجائے کہ وہ زمینی راستوں کے ذریعے ملکی سرحد عبور تو نہیں کر گئے۔
اس معاملے کی آئندہ سماعت یکم فروری کو ہو گی۔