مذہبی دہشت گردی ایسا معاملہ ہے جسے مکمل طور پر کبھی ختم نہیں کیا سکتا، جب کہ امریکی سرزمین پر اس کا خدشہ رہتا ہے۔ یہ بات امریکی ’انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہی گئی ہے، جس مطالعے میں سلفی جہاد کے حقائق اور ارتقا کی تفصیل درج ہے، جو معاملہ ستمبر 2001ء میں امریکہ پر حملوں کی صورت میں نمودار ہوا۔
’دِی جہاد تھریٹ: آئی ایس آئی ایس، القاعدہ اینڈ بیونڈ‘ نامی یہ مطالعاتی رپورٹ 20 ماہرین نے تیار کی ہے جن کا تعلق ’سیاسی تناظر، آثار اور ارتقا‘ سے ہے، جب کہ یہ معاملہ پہلی بار 1970ء کی دہائی میں سامنے آیا، جب یہ مطلق العنان حکومتوں تک محدود تھا؛ بعدازاں 1990ء کی دہائی میں اس کا رُخ مغرب کی جانب ہوا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اسلامی دہشت گردی کا واحد مؤثر حل یہ ہوگا کہ اُن عوامل کو مدِ نظر رکھا جائے، جن کی وجہ سے یہ ماجرا پیدا ہوا، جب کہ اس کے پنپنے کے عناصر اب بھی باقی ہیں۔
رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ غربت، بے روزگاری اور سماجی بے انصافی دہشت گردی کو فروغ دینے کے اہم عوامل ہیں، جس کے نتیجے میں، حل کی تلاش کثیر آبادی کو مذہب کی جانب رُخ کرنے پر راغب کرتی ہے۔
مطالعاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مروجہ سیاسی و فوجی عوامل، فرقہ وارانہ تشدد، اور غیر مسلم بیرونی فوجوں کی جانب سے فوجی مداخلت کے نتیجے میں شدت پسندی کا درجہ بڑھتا ہے، جو روداد عالمی سطح پر اخباری شہ سرخیوں کی صورت اختیار کرتی ہے۔
جنیفر کافریلا ’انسٹی ٹیوٹ فور اسڈی آف وار‘ میں انٹیلی جنس کے معاملات پر نظر رکھتی ہیں اور رپورٹ کی شریک مصنفہ ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ پریشان حال اور حق رائے دہی سے محروم سنی آبادی کی کمی نہیں، جو اپنی تکالیف کا مداوا کرنے کے لیے اسلحہ اٹھاتی ہے، جن کا اعتماد اٹھ چکا ہے اور موجودہ سیاسی نظام میں رہ کر اُن میں کچھ حاصل کرنے کی توقع کم ہے‘‘۔
بقول اُن کے، ’’ایسے میں جب یہ آبادی مزید ناراض ہوتی ہے، اُسی اعتبار سے سلفی جہادی گروپ اس قابل بنتا ہے کہ غصے کی روش اپنانے والوں کو بھرتی میں بدل دیں، جس کا ہدف ملکی ڈھانچہ اور مغرب کے خلاف تشدد کی کارروائیاں ہیں‘‘۔
رپورٹ میں بنیادی طور پر دھیان داعش کے دہشت گرد گروپ اور القاعدہ پر مرتکز کیا گیا ہے، جن کا بنیادی ہدف یکساں لیکن طریقہٴ کار بہت مختلف ہے۔ داعش کو فوری اقدام کرنے والا اور طاقت ور خیال کیا جاتا ہے، جب کہ القاعدہ ’’حکمتِ عملی کی مالک اور دیدہ دانستہ‘‘ نوع کا گروپ ہے۔
گریٹ نادا ’یو ایس آئی پی‘ میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے ماہر اور رپورٹ کے شریک مصنف ہیں۔ بقول اُن کے، ’’تاہم، القاعدہ اِسے ایک طویل مدتی ہدف خیال کرتی ہے۔ کئی ملکوں میں مقامی افراد کو شریک کرکے اور لوگوں میں اعتماد حاصل کرکے، یہ دھیرج کا انداز اپنا کر کام دکھاتی ہے۔‘‘
جیسے جیسے وہ مقامی آبادیوں کی ضروریات پوری کرتی ہے، اس کی قربت کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جب کہ القاعدہ کی چوٹی کی قیادت فارغ ہوچکی ہے اور یوں لگتا ہے کہ دولت اسلامیہ کی ’’خلافت‘‘ نے اسے گہن لگا دی ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کا اثر و رسوخ کم ہوگیا ہے۔ داعش کے مظالم نے القاعدہ کو چمکانے میں مدد دی ہے، جسے ’’اعتدال پسند‘‘ متبادل خیال کیا جانے لگا ہے۔