|
اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں بیت الحم کے قریب یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے ایک مقام پر ایک نئی بستی کی منظوری دے دی ہے۔ یہ بات اس کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ نے بدھ کے رو ز کہی۔
اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے ایک مخالف گروپ ’پیس ناؤ‘ نے اس منصوبے کی مذمت کی اور اسے ایک ایسے علاقے پر "بھرپور حملہ" قرار دیا جو "اپنی قدیم بالکونیوں اور جدید ترین آبپاشی کے نظام کے لیے مشہور ہے اور جو ہزاروں سال کی انسانی سرگرمیوں کا ایک ثبوت ہے۔"
سخت موقف کے حامل وزیرخزانہ بیزالل اسموٹریچ نے، جو وزارت دفاع میں شہری امور کے سربراہ بھی ہیں، کہا کہ ان کے دفتر نے "اپنا کام مکمل کر لیا ہے اور یروشلم کےجنوب میں بستیوں کے ایک بلاک، گش ایٹزیون میں نئی بستی نہال ہیلٹز کے لیے ایک منصوبہ شائع کیا ہے ۔
سموٹریچ نے جو ایک یہودی بستی میں رہتے ہیں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیا کہ " کوئی بھی اسرائیل مخالف اور صیہونی مخالف فیصلہ ان بستیوں کی توسیع کو نہیں روکے گا۔"
انہوں نے کہا کہ "ہم زمینی حقائق کی تشکیل کےذریعے فلسطینی ریاست کی تشکیل کے خطرناک منصوبے کے خلاف لڑائی جاری رکھیں گے۔"
اسرائیل نے 1967 میں جب سے مغربی کنارے پر قبضہ کیا ہے وہاں کی تمام آبادیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی خیال کیا جاتا ہے، خواہ ان کی منصوبہ بندی کی اسرائیل کی طرف سے اجازت دی جا چکی ہو۔
یہ منظوری ایک ایسے وقت میں بھی سامنے آئی ہے جب غزہ کی پٹی میں سات اکتوبر سے جاری، اسرائیل اور حماس کی جنگ پر مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں سخت کشیدگی ہے ۔
گزشتہ برسوں کے دوران، مغربی کنارے میں درجنوں غیر قانونی بستیاں تعمیر ہوئی ہیں ۔
مشرقی یروشلم کو چھوڑ کر، اس علاقے میں اب تقریباً 4 لاکھ 90 ہزار اسرائیلی آبادکار لگ بھگ تیس لاکھ فلسطینیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔
اسرائیل کے حکومتی اتحاد میں شامل انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے بستیوں کی توسیع میں تیزی لانے پر زور دیا ہے۔
نئی آبادکاری کی منظوری اس کے ایک دن بعد دی گئی ہے جب سخت موقف کے حامل قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر اس وقت عالمی مذمت کا مرکز بنے جب وہ الحاق شدہ مشرقی یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ کےاحاطے میں، جہاں یہودیوں کی نماز پر پابندی ہے، ہزاروں یہودیوں کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے شامل ہوئے-
انتہائی قیمتی ثقافتی ورثہ
نہال ہیلٹز بستی، جسے جون میں چار دوسری بستیوں کے ساتھ ابتدائی منظوری ملی تھی، گش ایٹزیون اور یروشلم کے جنوب میں فلسطینی شہر بیت الحم کے درمیان واقع ہے۔
پیس ناؤ نے کہا کہ وہ بستی فلسطینی گاؤں بطیر کی حدود کو چھوئے گی جو اپنی ذرعی بالکونیوں، انگور کے باغوں اور زیتون کے باغات کےلیے مشہور ایک عالمی ثقافتی ورثے کا مقام ہے۔
تنظیم نے ایک بیان میں کہا، ’’یہ کارروائیاں نہ صرف فلسطینی علاقےکو ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہیں اور بڑی کمیونٹیزکو ان کے قدرتی اور ثقافتی ورثے سے محروم کر رہی ہیں، بلکہ یہ ثقافتی اعتبار سے انسانیت کے لیے ایک انتہائی قیمتی ورثہ سمجھے جانے والے علاقے کے لیے بھی ایک ناگزیر خطرہ ہو ں گی ۔
یورپی یونین کی ایک رپورٹ کے مطابق، پچھلے سال اسرائیل نے مغربی کنارے میں 12,349 گھروں کی تعمیر کا منصوبہ پیش کیا تھا،جو 30 برسوں میں سب سے زیادہ تعدادہے۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ بستیاں اسرائیل اور فلسطینی ریاستوں کے ساتھ ساتھ قائم رہنے سے متعلق دو ریاستی حل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں ۔
اسرائیل اور حماس جنگ کے آغاز کے بعد سے مغربی کنارے میں تشدد میں اضافہ ہو چکا ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے اعدادوشمار پر مبنی اے ایف پی کی گنتی کے مطابق، 7 اکتوبر سے مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں اور آباد کاروں کے ہاتھوں کم از کم 625 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اسی عرصے کے دوران مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے حملوں میں فوجیوں سمیت کم از کم 18 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم