اسرائیل جنگ کے شروع میں ہی لبنان کی حزب اللہ ملیشیا کے خلاف حملہ کرنے والا تھا۔ لیکن آخری لمحوں میں یہ حملہ منسوخ کر دیا گیا۔
اسرائیل کے سابق آرمی چیف اور اسرائیلی جنگی کابینہ کے رکن گاڈی آئیزن کوٹ نے جمعرات کو اسرائیل کے چینل بارہ ٹی وی پر ایک انٹرویو میں اس حملے کے منصوبے اور پھر اسے منسوخ کردینے کی تصدیق کی۔
آئیزن کوٹ نے کہا کہ وہ باور کرتے ہیں اگر یہ حملہ ہوتا تو علاقائی جنگ چھڑ جاتی۔ وہ اور سابق وزیر دفاع بینی گینٹز اس حملے کے خلاف تھے۔
آئیزن کوٹ نے گیارہ اکتوبر کی ایک میٹنگ میں اس حملے کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہاں تک کہ ان کا گلا خشک ہو گیا۔
جب آئیزن کوٹ سے پوچھا گیا کہ کیا وار روم میں انکی اور سابق وزیر دفاع بینی گینٹز کی موجودگی نے ایک غلط فیصلے پر عمل در آمد روکنے میں مدد کی؟تو آئیزن کوٹ کا جواب تھا. بالکل واضح طور پر۔
بائیڈن انتظامیہ نے غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافے کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی جنگی کابینہ پر دباؤ ڈالا ہے کہ غزہ میں حماس کا وجود ختم کرنے کے لیے جاری مہم کے دائرہ کار کو محدود کرے۔
امریکہ اور اسرائیل میں اس معاملے پر اتفاق نہیں ہے کہ نیتن یاہو کی جنگی کابینہ کو اپنے فوجی مقاصد کو کس انداز میں حاصل کرنا چاہئیے اور یہ کہ جنگ کے بعد غزہ کا نظم و نسق کون سنبھالے گا۔ اس تناظر میں بظاہر یوں لگتا ہے کہ صدر بائیڈن موجودہ تنازعہ سے ہٹ کر مستقبل کا جائزہ لے رہے ہیں ۔
اعتدال پسند اسرائیلی اتحاد
صدر بائیڈن کہتے ہیں کہ وہ حماس کو ختم کرنے کےاسرائیل کے مقصد کی حمایت کرتے ہیں لیکن ان کی دوسری ترجیح یہ ہے کہ ’’اسرائیل کو ایک ایسے انداز میں متحد کرنے کے لیے کام کیا جائے جو دو ریاستی حل کے آغاز کے لیےآپشن فراہم کرے ۔‘‘
صدر بائیڈن نے نیتن یاہو کی حکومت میں شامل اسرائیل کی قومی سلامتی کے وزیر، انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان اتمر بن گوئر، اور ایسے افراد کا ذکر کیا جو سخت گیر مؤقف کے حامل ہیں۔
یہ افراد کسی بھی نوعیت کے دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہیں۔
بن گوئر اور اسرائیل کی مذہبی اور انتہائی دائیں بازوسے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے دیگر ارکان نے نیتن یاہو کو گزشتہ سال اقتدار میں واپس آنے میں مدد دی تھی ، جس کے نتیجے میں ملک کی 74 سالہ تاریخ میں سخت ترین مؤقف رکھنے والی حکومت تشکیل پائی۔
حکومت نے مغربی کنارے میں بستیوں میں توسیع کی ہے اور اسرائیلی عدالتی نظام میں جبری طور پر ایسی اصلاحات کی ہیں جن کے نتیجے میں فلسطینیوں کے حقوق مزید سلب ہوئے ہیں۔
بائیڈن نے کہا کہ نیتن یاہو کو اپنی حکومت میں تبدیلی لانی ہوگی کیونکہ یہ ’’ان کے لیے پیش رفت کو مشکل بنا رہی ہے۔‘‘ صدر بائیڈن کے اس بیان کو بعض لوگ اسرائیل میں بینی گینٹزجیسے اعتدال پسندوں کی جانب اشارہ سمجھتے ہیں ۔
بینی گینٹز حزب اختلاف کے ایک مقبول سیاست دان ہیں جو فلسطینی مقصد سے ہمدردی رکھتے ہیں اور جنہوں نے 7 اکتوبر کے بعد نیتن یاہو کی جنگی کابینہ میں شمولیت اختیار کی ہے۔
وائس آف امریکہ
فورم