اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے نفاذ کے بعد فریقین کے درمیان غزہ میں گیارہ روز تک جاری رہنے والی لڑائی اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے دفتر سے جمعرات کی شب دیر گئے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی کا فیصلہ اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ کے اجلاس کے بعد کیا گیا ہے جس میں مصر کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی کی ایک تجویز پر اتفاق ہوا تھا۔
مصر کی ثالثی میں ہونے والی اس جنگ بندی کے اعلان کے بعد غزہ کی پٹی میں جشن کا ماحول دیکھا گیا جہاں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے ریلیاں بھی نکالیں۔
فلسطینیوں کے عسکریت پسند گروپ حماس نے بھی فوری ردعمل میں کہا ہے کہ وہ بھی جنگ بندی معاہدے کا احترام کریں گے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کے دفاعی عہدیداروں، ملٹری چیف آف سٹاف اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر نے مصر کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی کی تجویز کو اس دعوے کے ساتھ منظور کر لیا ہے کہ اس آپریشن میں "عظیم کامیابیاں" حاصل کر لی گئی ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ کے ایک رکن نے اور مصر کے سرکاری خبر رساں ادارے ’مینا‘ نے بتایا ہے کہ جنگ بندی پر عمل درآمد اس اعلان کے کم و بیش تین گھنٹے بعد، یعنی مقامی وقت کے مطابق رات دو بجے ہو رہا ہے۔
حماس کے عہدیدار طہیر ناونو نے بھی اس معاہدے کی تصدیق کی ہے۔
صدر بائیڈن کا جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور مصری ہم منصب عبدالفتح السیسی سے رابطہ کیا ہے۔
صدر بائیڈن کے بقول نیتن یاہو نے انہیں بتایا ہے کہ اسرائیل نے دوطرفہ اور غیر مشروط جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے جب کہ مصر نے بھی آگاہ کیا ہے کہ حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہ بھی لڑائی ختم کرنے پر راضی ہیں۔
صدر بائیڈن نے اس بات کو پھر دہرایا کہ امریکہ حماس کی جانب سے فائر کیے جانے والے راکٹ حملوں کے جواب میں اسرائیل کے حقِ دفاع کی حمایت کرتا ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ لگ بھگ گیارہ روز تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں انہوں نے چھ مرتبہ اسرائیلی وزیرِ اعظم اور ایک سے زائد مرتبہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے رابطہ کیا تھا۔
صدر بائیڈن نے لڑائی کے خاتمے کی کوششوں میں حصہ لینے والے ممالک کو سراہا اور کہا کہ ان کی ہمدردیاں ان تمام اسرائیلی اور فلسطینی خاندانوں کے ساتھ ہیں جو اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔
جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس
اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع پر جمعرات کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس نیویارک میں منعقد ہوا تھا جس میں سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فریقین کے درمیان غزہ میں لڑائی کو فوری ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
خصوصی اجلاس عرب اور دیگر مسلم ملکوں کے مطالبے پر بلایا گیا تھا تاکہ غزہ کی صورت حال پر غور کیا جا سکے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ ہمیں ہر صورت جنگ بندی کا مقصد حاصل کرنا ہو گا۔ ہنگامی بنیادوں پر مخاصمانہ کارروائیاں روکنا اور کشیدگی میں کمی لانا ضروری ہے۔ ان کے بقول اگر ایسا نہ کیا گیا تو سرحد کے آر پار سلامتی کا معاملہ اور انسانی بحران قابو سے باہر ہو جائے گا۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع میں ہونے والا نقصان
تقریباً 11 روز تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق 230 افراد ہلاک ہوئے جن میں 65 بچے بھی شامل ہیں جب کہ اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے راکٹ حملوں میں 12 شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں 70 ہزار سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں۔
اسرائیل نے لڑائی کے دوران شہری عمارتوں کے علاوہ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے دفاتر کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ تاہم اسرائیل کا مؤقف تھا کہ جس عمارت میں عالمی نشریاتی اداروں کے دفاتر موجود تھے وہ حماس کے زیرِ استعمال تھی۔
غزہ پر حملوں کے بارے میں اسرائیلی سفیر کا اقوامِ متحدہ میں خطاب
اقوامِ متحدہ کے لیے اسرائیل کے سفیر جیلاد اردن نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا کہ اسمبلی میں موجود بہت سے مقررین نے اسرائیل فلسطینی تنازع پر بات کرتے ہوئے حماس اور اس کی کارروائیوں سے صرف نظر کیا۔
انہوں نے حماس کو ’نازی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عسکریت پسند گروپ یہودیوں کی نسل کشی اور اسرائیل کی تباہی کے نعرے بلند کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان غلط موازنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ اسرائیل، ان کے بقول ایک امن پسند جمہوریت ہے جو بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرتا ہے اور حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس کے نظریات داعش سے مطابقت رکھتے ہیں۔
جیلاد اردن کے بقول حماس کی جانب سے اسرائیلی شہریوں پر فائرنگ کی جاتی ہے اور وہ اپنے ہتھیاروں کو فلسطینی عوام سے بھی چھپاتے ہیں اور ان کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
اسرائیلی سفیر نے کہا کہ حماس کے راکٹ فائر اندھادھند اور شہریوں پر بلا امتیاز حملہ ہیں جب کہ اسرائیلی حملے بہت جامع اور سرجیکل ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین سے بھی کہیں آگے کے معیار برقرار رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے شہریوں کے دفاع پر کسی سے معافی نہیں مانگیں گے۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ کا جنرل اسمبلی میں مؤقف
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ جنرل اسمبلی کو ہر صورت ذمہ داری لینے کی ضرورت ہے اور کہا کہ اسرائیلی جارحیت کو روکنا پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔
انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ سیکیورٹی کونسل اس آخری لمحے میں اسرائیلی حملوں کو بند کرنے کا مطالبہ کرے گی۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو جنرل اسمبلی کو چاہیے کہ وہ پوری بین الاقوامی برادری کی طرف سے یہ مطالبہ کرے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ باقاعدہ زمینی، بحری اور فضائی فوج سے محروم فلسطینیوں اور جنگی مشینوں سے لیس، دنیا کے طاقتور ترین ملکوں میں سے ایک اسرائیل کے درمیان کوئی فوجی موازنہ نہیں بنتا۔ ان کے بقول یہ ایک فوجی طاقت سے لیس قابض اور مقبوضہ عوام کے درمیان جنگ ہے۔ یہ ایک غیر قانونی قبضے اور اپنے دفاع کی جائز جدوجہد کے درمیان لڑائی ہے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں تباہی سے دوچار عوام کے لیے تمام ممکنہ انسانی امداد فراہم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے ادارے کی طرف سے ہنگامی امداد کی اپیل کے ساتھ ساتھ، سیکرٹری جنرل بھی فلسطینیوں کے لیے ایک جامع امدادی منصوبہ شروع کریں۔
شاہ محمود نے کہا کہ غزہ میں میڈیکل ٹیمیں بھجوائی جائیں۔ ادویات، دیگر ضروری سامان، اشیا خورونوش اور دیگر ضروری اشیا کو غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں بھجوایا جائے۔
اس سلسلے میں ایک امریکی ٹیلی وژن کے ساتھ شاہ محمود قریشی کے انٹرویو کو بعض حلقوں نے یہود مخالف قرار دیا جس پر انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس تاثر کو غلط قرار دیا۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس خصوصی اجلاس کے لیے تقریباً ایک درجن کے قریب وزرائے خارجہ نیویارک میں تھے۔ جہاں اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں فلسطین اسرائیل معاملے پر ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا، جو کہ 14 ماہ قبل کرونا کی وبا پھیلنے کے بعد سے عالمی ادارے کا پہلا شخصی موجودگی والا اجلاس تھا۔