رسائی کے لنکس

اسرائیل اور فلسطینیوں کا تنازع، بھارت میں کون کس کی حمایت کر رہا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع اور کئی روز سے جاری لڑائی پر بھارت میں بھی مختلف سیاسی اور عوامی حلقے صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعض حلقے اسرائیل جب کہ متعدد مسلمان تنظیموں سمیت بعض طبقات فلسطین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں۔

بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت انڈین نیشنل کانگریس نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری لڑائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد ختم کر کے مذاکرات کی میز پر آئیں۔

کانگریس نے اس معاملے پر بھارتی حکومت کے متوازن مؤقف پر اظہارِ اطمینان کرتے ہوئے جنگ بندی کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے سیل برائے خارجہ امور کے سربراہ اور سابق مرکزی وزیر آنند شرما نے ایک بیان میں اسرائیل اور حماس پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر طاقت کا استعمال بند کریں۔

تشدد ناقابلِ قبول

کانگریس کے مطابق نہ تو حماس کی جانب سے راکٹ داغے جانے کی حمایت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فوجی کارروائی قابلِ قبول ہے۔

یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب ٹی ایس تری مورتی نے فریقین سے اپیل کی ہے کہ وہ کشیدگی ختم کریں اور فوری طور پر مذاکرات کا آغاز کریں۔

انہوں نے اتوار کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا تھا کہ حالیہ واقعات سے سیکیورٹی کی صورت حال خراب ہوئی ہے۔ لہذٰا، ہم اسرائیل میں سویلین آبادی کو ہدف بنا کر غزہ سے راکٹ داغے جانے اور جواب میں اسرائیل کی غزہ میں بمباری سے بچوں اور خواتین کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہیں۔

ٹی ایس تری مورتی نے کہا کہ ہم فلسطینی کاز کی غیر متزلزل حمایت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ تنازع کے دو ریاستی حل پر زور دیتے ہیں۔

بھارتی حکومت کے اس مؤقف کو نئی دہلی کے تجزیہ کار ایک متوازن مؤقف قرار دے رہے ہیں۔


سرکردہ شخصیات کا اظہار تشویش

دریں اثنا سویلین، سیاست دانوں اور مذہبی شخصیات کے ایک گروپ پر مشتمل تنظیم ”انڈین فرینڈز فار فلسطین“ نے بدھ کو ایک ورچوئل یعنی آن لائن نیوز کانفرنس میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی افواج کی کارروائیوں کی مذمت کی اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی علاقوں پر اپنا قبضہ ختم کرے۔

سابق رُکنِ پارلیمنٹ ایم پی کے سی تیاگی نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس معاملے کو مذہبی کے بجائے انسانی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ میں بھارتی مندوب ٹی ایس تری مورتی کی جانب سے فلسطینی کاز کی حمایت کا خیرمقدم کیا۔

پروگرام کے کنونیئر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ مسجد اقصیٰ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے مقدس مقام ہے اور اس کے ساتھ ان کے مذہبی جذبات وابستہ ہیں۔

جماعتِ اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اسرائیل پر اقتصادی پابندی عائد کی جانی چاہیے کیوں کہ یہی اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ ہے۔ انہوں نے اس معاملے کو اقوامِ متحدہ میں پرزور انداز میں اٹھانے پر زور دیا۔

’بھارتیہ سرو دھرم سمبھاؤ‘ نامی ایک ہندو مذہبی تنظیم کے رہنما گوسوامی سشیل جی مہاراج، جمعیت علما ہند کے جنرل سکریٹری اور سابق رکن پارلیمنٹ مولانا محمود مدنی اور سینئر صحافی سنتوش بھارتیہ سمیت دیگر نے بھی اس موقع پر اظہارِ خیال کیا۔


صحافتی اداروں پر حملے کی مذمت

قبل ازیں ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا اور دیگر صحافی تنظیموں نے غزہ میں واقع اُس کثیر منزلہ عمارت پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی جس میں امریکہ کے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ اور دیگر میڈیا اداروں کے دفاتر تھے۔

'ایڈیٹرز گلڈ' نے ایک بیان میں کہا کہ خطے میں بڑھتے تنازع کے تناظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے نیوز میڈیا پر ایک حملہ ہے جس کا مقصد اس غیر مستحکم خطے سے خبروں کی ترسیل کو روکنا ہے۔

تنظیم نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس عمارت پر حملے کے فیصلے کا جواز اور اس کا ثبوت پیش کرے۔

'ایڈیٹرز گلڈ' نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کو اسرائیلی حکومت کے سامنے اٹھائے۔

انڈین ویمن پریس کور، پریس ایسو سی ایشن اور پریس کلب آف انڈیا نے بھی ایک مشترکہ بیان میں اسرائیلی کارروائی کی مذمت کی۔

فریقین سے جنگ بندی کی اپیل

پریس کلب آف انڈیا کے سکریٹری جنرل اور سینئر تجزیہ کار ونے کمار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فریقین پر جنگ بند کرنے اور قیامِ امن کے لیے مذاکرات پر زور دیا۔

انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم سے جنگ بند کرنے کی اپیل کی ہے، کہا کہ یہ ایک بڑا بیان ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی رہنما اس پر توجہ دیں گے اور جنگ بند کریں گے۔

ونے کمار کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں دونوں طرف شہری آبادی نشانہ بن رہی ہے، لہذٰا اس لڑائی کو فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔

ونے کمار نے غزہ میں میڈیا ہاؤسز کی عمارت پر اسرائیلی افواج کے حملے کی مذمت کی اور کہا کہ اس سے وہاں سے خبروں کی ترسیل پر اثر پڑا ہے۔ ان کے بقول جنگ زدہ علاقے سے خبروں کی ترسیل کرنے والے اداروں پر حملہ کرنا قابلِ مذمت ہے۔

انہوں نے اقوامِ متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب ٹی ایس تری مورتی کے اس بیان کی حمایت کی جس میں انہوں نے تشدد کے خاتمے، مذاکرات کے آغاز اور دو ریاستی حل کی کوشش پر زور دیا ہے۔

سوشل میڈیا پر اسرائیل کی حمایت

ادھر بھارتی حکومت کے حامی گروپوں اور دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اسرائیل کی حمایت کا سلسلہ جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے سے ہی بھارتی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہیش ٹیگ آئی سپورٹ اسرائیل، انڈیا سپورٹ اسرائیل،انڈیا اسٹینڈ ود اسرائیل اور اسرائیل انڈر فائر ٹرینڈ کر رہا ہے۔

اسرائیل، فلسطین تنازع میں عوامی رائے تقسیم ہونے کے باوجود تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت ہمیشہ ہی فلسطینی کاز کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اس نے 29 نومبر 1981 کو فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔

بھارت پہلا غیر عرب ملک تھا جس نے ”فلسطین لبریشن آرگنائزیشن“ (پی ایل او) کو فلسطینی عوام کا واحد جائز نمائندہ تسلیم کیا تھا۔ 1975 میں نئی دہلی میں پی ایل او کا ایک دفتر بھی قائم ہوا تھا۔

بھارت کے اسرائیل کے ساتھ دو طرفہ تعلقات بھی مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں جب کہ بعض مبصرین کے مطابق نریندر مودی حکومت میں یہ مزید پروان چڑھے ہیں۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جولائی 2017 میں اسرائیل کا دورہ بھی کیا تھا۔ اسرائیل کا دورہ کرنے والے وہ پہلے بھارتی وزیرِ اعظم تھے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کو اپنا دوست قرار دیا تھا۔ بعد ازاں وزیرِ اعظم مودی نے فلسطین کا بھی دورہ کیا تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG