تجزیہ کاروں اور پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ نئے سال کے دوران اسرائیل، ایران اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تصادم کا امکان موجود ہے اور نئے چیلنج سامنے آئیں گے۔ لیکن ان میں اس نکتے پر اتفاق نہیں کہ ان میں سے کون سا تصادم پہلے ہو گا۔
2012 کے اختتام پر اسرائیل کے سیاسی تجزیہ کاروں نے پیشگوئی کی ہے کہ آنے والے سال میں اسرائیل کے لیے سب سے بڑا چیلنج وہ کشیدگی ہو گی جو ایران کے مبینہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے پروگرام کی وجہ سے ان دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہو گی۔
سال کے اختتام پر، اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو نے ان خطرات کے بارے میں انتباہ کیا جو ایران کے نیوکلیئر بم بنانے کے لیے یورینیم کی کافی مقدار افژودہ کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوں گے۔
’’میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ میں نے جو اندازہ لگایا تھا وہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ایران خطرے کی لائن پار کرنے کے ڈھائی مہینے اور نزدیک آ گیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ بہت بڑا چیلنج ہو گا جس پر ہمیں اگلے سال توجہ دینی ہوگی۔‘‘
مسٹر نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل ایران کی نیو کلیئر تنصیبات پر حملہ کرنے کو تیار ہے، اور اگر ضروری ہوا تووہ امریکی حمایت کے بغیر ایسا کرے گا۔
ایران نے کہا ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام پُر امن مقاصد کے لیے ہے اور اگر اس پر حملہ کیا گیا تو وہ جوابی کارروائی کرے گا۔
تل ابیب میں انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی اسٹدیز کے شلومو بروم کہتے ہیں کہ اپنی تمام تر بیان بازی کے باوجود، ایران کی قیادت فوجی تصادم سے بچنا چاہے گی۔ اور ان کا خیال ہے کہ اسرائیل کی فوج اتنی طاقتور ہے کہ وہ ایرانی حملے کا بخوبی مقابلہ کر سکتی ہے ۔ ان کے مطابق ’’اس وجہ سے، مجھے اسرائیلی آپریشن کے فوجی نتائج کے بارے میں اتنی زیادہ تشویش نہیں ہے۔ مجھے زیادہ تشویش اس کے سیاسی اثرات کے بارے میں ہے۔‘‘
بروم کہتے ہیں کہ ایران کی طرف سے غیر اسرائیلی اہداف پر، جیسے تیل کے جہازوں کی گذرگاہوں پر حملوں سے مغربی طاقتیں اس جھگڑے میں الجھ سکتی ہیں، اور اس طرح ان کے شہریوں میں اسرائیل کے خلاف جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔
اس کے باوجود، فلسطینی تجزیہ کاروں کے خیال میں علاقے میں اہم ترین مسئلہ ایران کا نہیں بلکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے تعلقات کا ہے ۔
مشرقی یروشلم کے انٹرنیشنل پیس اینڈ کو آپریشن سینٹر کے سربراہ رمی نصراللہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی لیڈروں نے فلسطینیوں کے ساتھ اپنے تنازعے کی طرف سے آنکھیں بند کر لی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ اسٹریٹجک مسائل کا سوال نہیں ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ایرانی خطرے سے نمٹنے کے لیے اسرائیل کے پاس تمام تکنیکی حل موجود ہیں ۔ لیکن کیا وہ کوئی ایسا طریقہ دریافت کرنے کو تیار ہیں جس کے ذریعے وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہ سکیں؟‘‘
اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ فلسطینی اسرائیلی امن مذاکرات جو ایک عرصے سے تعطل کا شکار ہیں ، مستقبل ِ قریب میں دوبارہ شروع ہوں گے ۔
نومبر میں جب غزہ کے فلسطینی عسکریت پسندوں کے راکٹوں کے حملوں کے جواب میں اسرائیل نے فوجی آپریشن کیا تو تعلقات اور زیادہ خراب ہوگئے ۔ آٹھ روزہ جنگ کے بعد دونوں فریقوں نے فتح کا دعویٰ کیا۔
اسرائیل وقتی طور پر غزہ سے راکٹوں کے خطرے کو کم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے ۔ لیکن غزہ میں مقیم تجزیہ کار مکیمار ابوژادہ کہتے ہیں کہ اس تنازعے سے اسلام پسند حماس کی حمایت میں اضافے ہوا ہے جس کے لیڈروں نے اسرائیل کو تباہ کرنے کا عہد کیا ہے ۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ، اس سے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے جن کی فتح تحریک اس جھگڑے کا تصفیہ مذاکرات کے ذریعے کرنا چاہتی ہے ۔ ابوسادا کے مطابق ’’اب تمام فیصلے حماس کرتی ہے۔ حماس طے کرتی ہے کہ جنگ بندی ہوئی ہے یا نہیں ، یا جنگ بندی ہو گی یا نہیں۔ یہ فیصلے محمود عباس، یا پی ایل او، یا فلسطینی سوسائٹی کا سیکولر کیمپ نہیں کرتا ۔‘‘
غزہ کے ٹکراؤ سے حماس کی الگ تھلگ ہوجانے کی کیفیت ختم ہو گئی کیوں کہ علاقے کے کئی ملکوں کے وزرائے خارجہ نے پانچ برس قبل اس گروپ کے غزہ میں بر سرِ اقتدار آنے کے بعد پہلی بار ، غزہ کا دورہ کیا۔
جنگ بندی کے ایک ہفتے بعد، مسٹر عباس اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں گئے جہاں بھاری اکثریت سے ایک قرار داد منظور ہوئی جس کے تحت فلسطینیوں کو مبصر ملک کی حیثیت دے دی گئی جسے ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔
اسرائیل نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے، مغربی کنارے میں نئی تعمیرات کا اختیار دے دیا اور فلسطینی اتھارٹی کو ٹیکسوں کی رقوم کی ادائیگی روک دی۔
مشرقی یروشلم کے تجزیہ کار نصراللہ کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے ووٹ سے فلسطینیوں کا حوصلہ بڑھا لیکن اس سے فلسطینیوں میں مسٹر عباس کی ساکھ بہتر بنانے میں کوئی مدد نہیں ملی ۔ انھوں نے کہا کہ ’’فلسطینیوں کو اس سے علامتی، اخلاقی مدد ملی۔ ان میں قومی فخر کا احساس پیدا ہوا لیکن اس کے علاوہ انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا ۔ ایک دن کے بعد ہی، یہ جو ش و جذبہ ختم ہو گیا۔‘‘
اسرائیلی تجزیہ کار بروم کہتے ہیں کہ اسرائیل کے لیے پریشانی کی با ت یہ ہے کہ بہت سے یورپی ملکوں نے، اس قرارداد کی مخالفت کرنے کے بجائے یا تو ووٹ ڈالنے سے اجتناب کیا یا اس کے حق میں ووٹ ڈالا۔ ان کا کہنا ہے کہ’’اسرائیل کے لیے اس ووٹ کی اسٹریٹجک اہمیت یہ ہے کہ اسرائیل روز بروز زیادہ الگ تھلگ ہوتا جا رہا ہے ، یہاں تک کہ ان ملکوں نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے جو روایتی طور پر اس کے اتحادی سمجھے جاتے ہیں۔‘‘
اسرائیل کے تنہا ہوجانے کی کیفیت ہمسایہ ملکوں میں ہنگاموں اور اسلام پسندوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے اور زیادہ نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔
اعتدال پسند فلسطینی سوچتے ہیں کہ جب ابھرتے ہوئے عرب لیڈر اپنے داخلی مسائل پر توجہ مرکوز کریں گے ، تو ان کے مسئلے کو نظر انداز کر دیا جائے گا۔
تاہم، عسکریت پسند فلسطینوں کو علاقے میں ابھرتے ہوئے نئے لیڈروں میں امید کی کرن نظر آتی ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نئے لیڈر ان کی امنگوں کی اور ان طریقوں کی حمایت کریں گے جو ان کے خیال میں ان امنگوں کے حصول کے لیے ضروری ہیں۔
2012 کے اختتام پر اسرائیل کے سیاسی تجزیہ کاروں نے پیشگوئی کی ہے کہ آنے والے سال میں اسرائیل کے لیے سب سے بڑا چیلنج وہ کشیدگی ہو گی جو ایران کے مبینہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے پروگرام کی وجہ سے ان دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہو گی۔
سال کے اختتام پر، اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو نے ان خطرات کے بارے میں انتباہ کیا جو ایران کے نیوکلیئر بم بنانے کے لیے یورینیم کی کافی مقدار افژودہ کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوں گے۔
’’میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ میں نے جو اندازہ لگایا تھا وہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ایران خطرے کی لائن پار کرنے کے ڈھائی مہینے اور نزدیک آ گیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ بہت بڑا چیلنج ہو گا جس پر ہمیں اگلے سال توجہ دینی ہوگی۔‘‘
مسٹر نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل ایران کی نیو کلیئر تنصیبات پر حملہ کرنے کو تیار ہے، اور اگر ضروری ہوا تووہ امریکی حمایت کے بغیر ایسا کرے گا۔
ایران نے کہا ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام پُر امن مقاصد کے لیے ہے اور اگر اس پر حملہ کیا گیا تو وہ جوابی کارروائی کرے گا۔
تل ابیب میں انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی اسٹدیز کے شلومو بروم کہتے ہیں کہ اپنی تمام تر بیان بازی کے باوجود، ایران کی قیادت فوجی تصادم سے بچنا چاہے گی۔ اور ان کا خیال ہے کہ اسرائیل کی فوج اتنی طاقتور ہے کہ وہ ایرانی حملے کا بخوبی مقابلہ کر سکتی ہے ۔ ان کے مطابق ’’اس وجہ سے، مجھے اسرائیلی آپریشن کے فوجی نتائج کے بارے میں اتنی زیادہ تشویش نہیں ہے۔ مجھے زیادہ تشویش اس کے سیاسی اثرات کے بارے میں ہے۔‘‘
بروم کہتے ہیں کہ ایران کی طرف سے غیر اسرائیلی اہداف پر، جیسے تیل کے جہازوں کی گذرگاہوں پر حملوں سے مغربی طاقتیں اس جھگڑے میں الجھ سکتی ہیں، اور اس طرح ان کے شہریوں میں اسرائیل کے خلاف جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔
اس کے باوجود، فلسطینی تجزیہ کاروں کے خیال میں علاقے میں اہم ترین مسئلہ ایران کا نہیں بلکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے تعلقات کا ہے ۔
مشرقی یروشلم کے انٹرنیشنل پیس اینڈ کو آپریشن سینٹر کے سربراہ رمی نصراللہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی لیڈروں نے فلسطینیوں کے ساتھ اپنے تنازعے کی طرف سے آنکھیں بند کر لی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ اسٹریٹجک مسائل کا سوال نہیں ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ایرانی خطرے سے نمٹنے کے لیے اسرائیل کے پاس تمام تکنیکی حل موجود ہیں ۔ لیکن کیا وہ کوئی ایسا طریقہ دریافت کرنے کو تیار ہیں جس کے ذریعے وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہ سکیں؟‘‘
اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ فلسطینی اسرائیلی امن مذاکرات جو ایک عرصے سے تعطل کا شکار ہیں ، مستقبل ِ قریب میں دوبارہ شروع ہوں گے ۔
نومبر میں جب غزہ کے فلسطینی عسکریت پسندوں کے راکٹوں کے حملوں کے جواب میں اسرائیل نے فوجی آپریشن کیا تو تعلقات اور زیادہ خراب ہوگئے ۔ آٹھ روزہ جنگ کے بعد دونوں فریقوں نے فتح کا دعویٰ کیا۔
اسرائیل وقتی طور پر غزہ سے راکٹوں کے خطرے کو کم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے ۔ لیکن غزہ میں مقیم تجزیہ کار مکیمار ابوژادہ کہتے ہیں کہ اس تنازعے سے اسلام پسند حماس کی حمایت میں اضافے ہوا ہے جس کے لیڈروں نے اسرائیل کو تباہ کرنے کا عہد کیا ہے ۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ، اس سے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے جن کی فتح تحریک اس جھگڑے کا تصفیہ مذاکرات کے ذریعے کرنا چاہتی ہے ۔ ابوسادا کے مطابق ’’اب تمام فیصلے حماس کرتی ہے۔ حماس طے کرتی ہے کہ جنگ بندی ہوئی ہے یا نہیں ، یا جنگ بندی ہو گی یا نہیں۔ یہ فیصلے محمود عباس، یا پی ایل او، یا فلسطینی سوسائٹی کا سیکولر کیمپ نہیں کرتا ۔‘‘
غزہ کے ٹکراؤ سے حماس کی الگ تھلگ ہوجانے کی کیفیت ختم ہو گئی کیوں کہ علاقے کے کئی ملکوں کے وزرائے خارجہ نے پانچ برس قبل اس گروپ کے غزہ میں بر سرِ اقتدار آنے کے بعد پہلی بار ، غزہ کا دورہ کیا۔
جنگ بندی کے ایک ہفتے بعد، مسٹر عباس اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں گئے جہاں بھاری اکثریت سے ایک قرار داد منظور ہوئی جس کے تحت فلسطینیوں کو مبصر ملک کی حیثیت دے دی گئی جسے ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔
اسرائیل نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے، مغربی کنارے میں نئی تعمیرات کا اختیار دے دیا اور فلسطینی اتھارٹی کو ٹیکسوں کی رقوم کی ادائیگی روک دی۔
مشرقی یروشلم کے تجزیہ کار نصراللہ کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے ووٹ سے فلسطینیوں کا حوصلہ بڑھا لیکن اس سے فلسطینیوں میں مسٹر عباس کی ساکھ بہتر بنانے میں کوئی مدد نہیں ملی ۔ انھوں نے کہا کہ ’’فلسطینیوں کو اس سے علامتی، اخلاقی مدد ملی۔ ان میں قومی فخر کا احساس پیدا ہوا لیکن اس کے علاوہ انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا ۔ ایک دن کے بعد ہی، یہ جو ش و جذبہ ختم ہو گیا۔‘‘
اسرائیلی تجزیہ کار بروم کہتے ہیں کہ اسرائیل کے لیے پریشانی کی با ت یہ ہے کہ بہت سے یورپی ملکوں نے، اس قرارداد کی مخالفت کرنے کے بجائے یا تو ووٹ ڈالنے سے اجتناب کیا یا اس کے حق میں ووٹ ڈالا۔ ان کا کہنا ہے کہ’’اسرائیل کے لیے اس ووٹ کی اسٹریٹجک اہمیت یہ ہے کہ اسرائیل روز بروز زیادہ الگ تھلگ ہوتا جا رہا ہے ، یہاں تک کہ ان ملکوں نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے جو روایتی طور پر اس کے اتحادی سمجھے جاتے ہیں۔‘‘
اسرائیل کے تنہا ہوجانے کی کیفیت ہمسایہ ملکوں میں ہنگاموں اور اسلام پسندوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے اور زیادہ نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔
اعتدال پسند فلسطینی سوچتے ہیں کہ جب ابھرتے ہوئے عرب لیڈر اپنے داخلی مسائل پر توجہ مرکوز کریں گے ، تو ان کے مسئلے کو نظر انداز کر دیا جائے گا۔
تاہم، عسکریت پسند فلسطینوں کو علاقے میں ابھرتے ہوئے نئے لیڈروں میں امید کی کرن نظر آتی ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نئے لیڈر ان کی امنگوں کی اور ان طریقوں کی حمایت کریں گے جو ان کے خیال میں ان امنگوں کے حصول کے لیے ضروری ہیں۔