واشنگٹن —
اسرائیل کے وزیرِ اعظم نے دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ایک واضح "سرخ لکیر " کا تعین کرے کیوں کہ ایسا کرنا، ان کے بقول، خطے میں جوہری جنگ سے بچنے کا واحد راستہ ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نے یہ بیان جمعرات کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ اجلاس میں موجود مندوبین نے اسرائیلی وزیرِاعظم کی تقریر کے دوران میں کئی بار ڈیسک بجا کر ان کی زبردست پذیرائی کی۔
اپنےخطاب میں اسرائیلی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ اگر ایران کی ان تنصیبات کو کام جاری رکھنے دیا گیا جہاں یورینیم افزودہ کی جارہی ہے تو تہران حکومت آئندہ برس اگست یا ستمبر تک جوہری ہتھیار تیار کرنے کے قابل ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی رہنمائوں کو اسرائیل یا کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف جوہری بم استعمال کرنے میں ہرگز کوئی تامل نہیں ہوگا۔
وزیرِاعظم نیتن یاہو نے ان لوگوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جو یہ کہتے ہیں کہ ایران کے جوہری قوت بننے سے مشرقِ وسطیٰ میں استحکام آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ امید رکھنا، یہ گمان کرنے کے مترادف ہے کہ جوہری بموں سے لیس القاعدہ دنیا میں قیامِ امن کے لیے کردار ادا کرے گی۔
اسرائیل، امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کے ان دعووں کے برعکس کہ ایران جوہری بم تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ایرانی حکومت کا موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سراسر پرامن مقاصد کے لیے ہے جس کی کوئی عسکری جہت نہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس کا خطاب
قبل ازیں جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیل پر مشرقِ وسطیٰ میں جاری امن عمل سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کیا۔
اپنے خطاب میں فلسطینی صدر کا کہنا تھا کہ اسرائیل مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو رد کر رہا ہے اور فلسطینی اتھارٹی کو ناکام بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
فلسطینی صدر نے اسرائیلی حکومت کو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے پر بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس سے قبل جب فلسطینی صدر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کی دعوت دی گئی تو ہال میں موجود مندوبین نے ان کا زبردست خیرمقدم کیااور کئی منٹوں تک ڈیسک بجاتے رہے۔
صدر عباس نے اپنے خطاب میں اقوامِ متحدہ سے فلسطین کو عالمی ادارے میں مبصر ریاست کا درجہ دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس سے اپنے خطاب میں فلسطینی صدر نے اپنے ملک کو اقوامِ متحدہ کی مکمل رکنیت دلانے کی کوششوں کا اعلان کیا تھا جو بعد ازاں ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں۔
جمعرت کے اجلاس سے خطاب کرنے والے ایک اور قابلِ ذکر رہنما تیونس کے صدر منصف مرزوقی تھے جنہوں نے اپنے خطاب میں شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
تیونسی صدر کا کہنا تھا کہ دنیا آمریت کو ایک ایسی بیماری سمجھتی ہے جس سے نہ صرف دنیا کی امن و سلامتی بلکہ عوام کی خوش حالی کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
انہوں نے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ شام میں آمریت کے خاتمے کے لیے کوششیں کرے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نے یہ بیان جمعرات کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ اجلاس میں موجود مندوبین نے اسرائیلی وزیرِاعظم کی تقریر کے دوران میں کئی بار ڈیسک بجا کر ان کی زبردست پذیرائی کی۔
اپنےخطاب میں اسرائیلی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ اگر ایران کی ان تنصیبات کو کام جاری رکھنے دیا گیا جہاں یورینیم افزودہ کی جارہی ہے تو تہران حکومت آئندہ برس اگست یا ستمبر تک جوہری ہتھیار تیار کرنے کے قابل ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی رہنمائوں کو اسرائیل یا کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف جوہری بم استعمال کرنے میں ہرگز کوئی تامل نہیں ہوگا۔
وزیرِاعظم نیتن یاہو نے ان لوگوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جو یہ کہتے ہیں کہ ایران کے جوہری قوت بننے سے مشرقِ وسطیٰ میں استحکام آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ امید رکھنا، یہ گمان کرنے کے مترادف ہے کہ جوہری بموں سے لیس القاعدہ دنیا میں قیامِ امن کے لیے کردار ادا کرے گی۔
اسرائیل، امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کے ان دعووں کے برعکس کہ ایران جوہری بم تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ایرانی حکومت کا موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سراسر پرامن مقاصد کے لیے ہے جس کی کوئی عسکری جہت نہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس کا خطاب
قبل ازیں جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیل پر مشرقِ وسطیٰ میں جاری امن عمل سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کیا۔
اپنے خطاب میں فلسطینی صدر کا کہنا تھا کہ اسرائیل مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو رد کر رہا ہے اور فلسطینی اتھارٹی کو ناکام بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
فلسطینی صدر نے اسرائیلی حکومت کو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے پر بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس سے قبل جب فلسطینی صدر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کی دعوت دی گئی تو ہال میں موجود مندوبین نے ان کا زبردست خیرمقدم کیااور کئی منٹوں تک ڈیسک بجاتے رہے۔
صدر عباس نے اپنے خطاب میں اقوامِ متحدہ سے فلسطین کو عالمی ادارے میں مبصر ریاست کا درجہ دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس سے اپنے خطاب میں فلسطینی صدر نے اپنے ملک کو اقوامِ متحدہ کی مکمل رکنیت دلانے کی کوششوں کا اعلان کیا تھا جو بعد ازاں ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں۔
جمعرت کے اجلاس سے خطاب کرنے والے ایک اور قابلِ ذکر رہنما تیونس کے صدر منصف مرزوقی تھے جنہوں نے اپنے خطاب میں شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
تیونسی صدر کا کہنا تھا کہ دنیا آمریت کو ایک ایسی بیماری سمجھتی ہے جس سے نہ صرف دنیا کی امن و سلامتی بلکہ عوام کی خوش حالی کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
انہوں نے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ شام میں آمریت کے خاتمے کے لیے کوششیں کرے۔