ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جاری جوہری مذاکرات اور مجوزہ معاہدے کی سن گن لینے کے لیے امریکہ کی جاسوسی کرتا رہا ہے۔
امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جنرل' نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل نے خفیہ آلات کے ذریعے مذاکرات سے وابستہ سفارت کاروں کی باتیں سننے کے علاوہ خفیہ امریکی بریفنگزکی جاسوسی کرکے بھی معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی۔
رپورٹ میں اخبار نے امریکی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل نے مذاکراتی عمل اور مجوزہ معاہدے کی تفصیلات کے حصول کے لیے یورپ کےسفارتی حلقوں میں موجود اپنے ذرائع بھی استعمال کیے۔
'وال اسٹریٹ جنرل' نے دعویٰ کیا ہے کہ 'وہائٹ ہاؤس' کو گزشتہ برس اسرائیل کی ان سرگرمیوں کی اطلاع مل گئی تھی لیکن امریکی حکام کے رابطے پر اسرائیلی حکومت نے ان اطلاعات کی تردید کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ مذاکراتی عمل کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے امریکہ کی جاسوسی نہیں کر رہا بلکہ ایرانی رہنماؤں کی نگرانی کے ذریعے مطلوبہ معلومات کے حصول کی کوششیں کر رہا ہے۔
'وال اسٹریٹ جرنل' نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے مجوزہ معاہدے کی تفصیلات اکٹھی کرنے کا مقصد ایران کے ساتھ ممکنہ معاہدے کی مخالفت میں اپنے دلائل کو موثر بنانا تھا۔
اخبار نے ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کے حوالے سے کہا ہے کہ اسرائیل نے اپنی حاصل کردہ خفیہ معلومات امریکی ارکانِ کانگریس تک پہنچائی تھیں تاکہ انہیں مجوزہ معاہدے کی مخالفت پر آمادہ کیا جاسکے۔
امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اخبار کو بتایا کہ امریکہ اور اسرائیل کا ایک دوسری کی جاسوسی کرنا اور بات ہے لیکن جاسوسی سے حاصل خفیہ معلومات کو امریکی قانون سازوں کو فراہم کرکے اسے امریکہ کے خلاف ہی استعمال کرنا اور امریکی حکومت کی سفارت کاری کو نقصان پہنچانا ایک بالکل مختلف عمل ہے۔
ایران اور چھ عالمی طاقتوں - امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی - کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کسی حتمی معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں اور فریقین مجوزہ معاہدے پر اپنے باقی ماندہ اختلافات دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
لیکن اسرائیل اس مجوزہ معاہدے کی سخت مخالفت کررہا ہے اور اسرائیلی حکومت کا موقف رہا ہے کہ ایسا کوئی بھی معاہدہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے نہیں روک پائے گا۔
صدر براک اوباما اور امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری سمیت کئی اعلیٰ امریکی اہلکار ماضی میں مذاکراتی عمل میں "بیرونی مداخلت" پر برہمی کا اظہار کرتے رہے ہیں اور ان کا موقف رہا ہے کہ قبل از وقت خدشات کے اظہار کے بجائے ایران کے جوہری تنازع کے حل کے لیےمذاکرات کو موقع ضرور دینا چاہیے۔
دریں اثنا اسرائیلی حکومت نے ایران کے جوہری پروگرام پر جاری مذاکراتی عمل کے بارے میں معلومات کے حصول کے لیے امریکہ کی جاسوسی کرنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔
اسرائیل کے وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے منسلک ایک حکومتی عہدیدار نے امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کے ساتھ گفتگو میں امریکی اخبار کی رپورٹ میں لگائے جانے والے الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔
اسرائیلی عہدیدار نے کہا کہ اسرائیل نے بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے مذاکرات کی سن گن لینے کے لیے امریکہ یا اسرائیل کے کسی اور اتحادی کی جاسوسی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل پر عائد کیے جانے والے ان غلط الزامات کا مقصد امریکہ اور اسرائیل کے مضبوط تعلقات اور دونوں ملکوں کے درمیان سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون کو نقصان پہنچانا ہے۔