اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ وہ افریقی ملک ایتھوپیا میں آباد یہودیوں میں سے دو ہزار افراد کو فوری طور پر اسرائیل لائیں گے۔
ایتھوپیا کے وزیرِ اعظم ابی احمد علی اور بن یامین نیتن یاہو کے درمیان جمعے کو ٹیلی فون پر گفتگو کے بارے میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ یہ اقدام یہودی مہاجرین کو اسرائیل میں آباد کرنے کی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس بابا اور ایک دوسرے شہر گوندر میں لگ بھگ 13 ہزار یہودی آباد ہیں۔ جو کہ اسرائیل کو اپنا گھر مانتے ہیں۔
ان یہودیوں کی اکثریت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر انہیں اسرائیل جانے کی اجازت نہ دی گئی تو وہ بھوک ہڑتال کریں گے۔
ایتھوپیا میں آباد ان یہودیوں میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کے کچھ افراد اسرائیل میں سکونت اختیار کر چکے ہیں۔
ایتھوپیا میں یہودی برادری کے لیے سرگرم تنظیم کے پروگرام ڈائریکٹر نگسی الیومو ایاسو کا کہنا ہے کہ 250 یہودی کرونا وبا پھوٹنے سے قبل اسرائیل منتقل ہو چکے ہیں۔
نگسی الیومو ایاسو کا مزید کہنا تھا کہ اب کرونا وائس کے باعث چوں کہ سفری پابندیاں عائد ہیں اس لیے اسرائیلی حکام آن لائن انٹرویوز لے رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ 2015 میں اسرائیل کی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ ایتھوپیا میں آباد یہودیوں کو اسرائیل لایا جائے گا۔
خیال رہے کہ 1991 میں جب ایتھوپیا میں خانہ جنگی جاری تھی۔ اس وقت اسرائیل نے دو دن کے دوران لگ بھگ 14 ہزار 500 یہودی بذریعہ جہاز اسرائیل منتقل کیے تھے۔
ایتھوپیا میں رہائش پذیر یہودیوں کو 'فلاشا' کہا جاتا ہے۔ جس کے معنی 'اجنبی' یا 'تارکین وطن' ہیں۔