|
اسرائیلی فوج کی حماس کے خلاف غزہ میں جنگ جاری ہے۔ حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کا اتوار کو کہنا تھا کہ اسرائیل کی ہفتے کی شب کی گئی بمباری میں مزید 61 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔
دوسری جانب حماس سے نئی عارضی جنگ بندی کی بات چیت کے لیے اسرائیلی وفد قطر جا رہا ہے۔
اتوار کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ایک بار پھر اعلان کیا کہ بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اسرائیلی فوج جنوبی غزہ کے شہر رفح میں زمینی حملے کے منصوبے پر عمل کرے گی۔
ایک جانب جہاں غزہ میں جنگ جاری ہے وہیں یمن کے حوثی باغیوں نے ایک بار پھر مشتبہ حملے میں خلیج عدن میں اتوار کی صبح ایک بحری جہاز کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
برطانوی فوج کے ’یونائیٹڈ کنگڈم میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز سینٹر‘ کا کہنا ہے کہ بحری جہاز کے عملے نے اس دھماکے کا مشاہدہ اس وقت کیا جب یہ جہاز جنوبی یمن کی ساحلی شہر عدن کے قریب گزر رہا تھا۔
بحری جہاز کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچنے کی اطلاع ہے جب کہ آپریشنز سینٹر کے مطابق عملہ بھی محفوظ رہا ہے۔
واضح رہے کہ حوثیوں نے اسی علاقے میں بار بار ڈرون اور میزائل حملے کیے ہیں جب کہ خلیج عدن کے راستے تیل اور دوسرے سامان کی ترسیل میں خلل ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
حوثی باغیوں نے فوری طور پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم عام پر حوثیوں کی جانب سے حملے کا اعتراف آنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
ادھر امریکہ کی فوج کی سینٹرل کمان نے کہا ہے کہ اس نے حوثیوں کو ہدف بناتے ہوئے کئی حملے کیے ہیں۔
بیان کے مطابق اس نے ہفتے کے روز پانچ ڈرون کشتیوں اور یمن میں حوثی باغیوں کے زیرآ کنٹرول علاقے سے روانگی سے پہلے ہی ایک ڈرون طیارے کو تباہ کیا ہے۔
امریکی فوج نے بحیرۂ احمر میں بھی حوثیوں کا ایک ڈرون مار گرایا ہے جب کہ ایک اور ڈرون کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ خود گر کر تباہ ہوا۔
سینٹرل کمان کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں کسی جہاز کو کوئی نقصان پہنچنے یا کسی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
حوثی نومبر سے خلیج عدن میں جہازوں پر حملے کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کو غزہ میں حماس کے خلاف جنگ بند کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔
جن جہازوں کو حوثیوں نے اب تک نشانہ بنایا ہے ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جن کا اسرائیل، امریکہ یا کسی بھی ایسے ملک سے جو جنگ میں ملوث ہے یا تو سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے یا معمولی سا تعلق ہے۔
حوثی باغیوں نے اسرائیل کی جانب میزائل بھی داغے ہیں۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر تو اسرائیل تک پہنچ ہی نہیں سکے۔ یا پھر انہیں راستے ہی میں تباہ کر دیا گیا۔
جمعرات کو ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حوثیوں کے پاس اب ہائپر سانک میزائل آگئے ہیں جو ممکنہ طور پر خطرے کو بڑھا رہے ہیں اور غزہ میں رمضان سے قبل جنگ بندی کے معاہدے میں ناکامی کے بعد اسرائیل پر مزید دباؤ کا سبب بن رہے ہیں۔
ہائپر سانک میزائل خطے میں امریکی اور اتحادیوں کے جنگی جہازوں کے لیے زیادہ سنگین خطرہ پیدا کر دیں گے۔
مارچ کے اوائل میں ایک حوثی میزائل نے خلیجِ عدن میں ایک تجارتی بحری جہاز کو نشانہ بنایا تھا جس میں اس کے عملے کے تین افراد ہلاک ہو گئے تھے اور بچ جانے والے جہاز کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ یہ حوثیوں کی جانب سے جہاز رانی پر پہلا ہلاکت خیز حملہ تھا۔
حوثیوں کی دوسری تازہ ترین کارروائیوں میں گزشتہ ماہ ایک کارگو شپ پر حملہ شامل ہے جو کھاد لے جا رہا تھا جو کئی روز بعد آخر کار سمندر میں ڈوب گیا۔
اس رپورٹ کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔