امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے پر امریکہ دو ریاستی حل کے موقف پر قائم ہے، لیکن خطے میں جاری تشدد ہمیں اس مقصد سے مزید دور کر رہا ہے۔
بدھ کے روز بین الاقوامی مذہبی آزادیوں سے متعلق سال 2020 کی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کے اجرا کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ انہوں نے معاون نائب وزیر خارجہ ہیڈی امر سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر خطے میں اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں۔ اور "میری طرف سے اور صدر جو بائیڈن کی جانب سے اُن پر تشدد کے خاتمے کے لئے زور دیں"۔ ان کا کہنا تھاکہ ہماری توجہ اسی پر مرکوز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ محکمہ خارجہ، وائٹ ہاؤس، سینئر امریکی عہدیدار اسرائیلیوں، فلسطینیوں اور علاقے میں اپنے دیگر شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں تا کہ کشیدگی کم کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ آگے بڑھنے کیلئے سب سے اہم بات وہاں تشدد میں کمی لانا ہے اور کشیدگی کم کرنا ہے، اور ہم سب یہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر سے بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے خود اسرائیل کے وزیر خارجہ اشکے نازی سے بات کی ہے۔ نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین بھی بات چیت کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی انتظامیہ تمام فریقوں سے بات کر رہی ہے، جن میں فلسطینی بھی شامل ہیں اور یہ بات چیت جاری رہے گی۔لیکن اہم ترین بات وہاں تمام فریقوں کی جانب سے تشدد ختم کرنا، اورکشیدگی کم کرکے امن قائم کرنا ہے۔
اینٹنی بلنکن نے کہا کہ ہم اسرائیل کی جانب سے اس کے جائز دفاع کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔ ۔امریکہ پہلے بھی راکٹ حملوں کی مذمت کرچکا ہے اور ایک بار پھر سخت ترین الفاظ میں ان کی مذمت کرتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایک بات بہت واضح ہے، اور وہ یہ کہ اسرائیل کو حق ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے اور فلسطینیوں کو حق ہے کہ وہ تحفظ اور سلامتی کے احساس کے ساتھ زندگی گزاریں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل، مغربی کنارے اور غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر انہیں گہری تشویش ہے۔ گزشتہ رات کی جو تصاویر سامنے آئی ہیں وہ دہلا دینے والی ہیں اور، بقول بلنکن، عام شہریوں کی جانوں کا زیاں ایک المیہ ہے۔
اے پی کے مطابق، فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان بدھ کو مسلسل تیسرے روز لڑائی جاری ہے جس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔
مذہبی آزادیوں کی صورتحال
مذہبی آزادیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مذہبی آزادی ایک انسانی حق ہے اور ہر انسانی حق کی طرح یہ آفاقی حق، عالمی ڈیکلیریشن آف ہیومن رائیٹس اور امریکی آئین کی پہلی ترمیم میں درج ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ کسی بھی مستحکم اور آزاد معاشرے کیلئے مذہبی آزادی ناگزیر ہے۔ انہوں نے مذہبی آزادیوں سے متعلق رپورٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں بہت سے انسانوں کو ان کا یہ حق نہیں مل رہا۔
چین
چین میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے، امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ وہاں عمومی سطح پر مذہبی اظہار کو غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ چین میں ایغور مسلمانوں اور دیگر مذہبی اور نسلی اقلیتوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔
چین کے صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کو وسیع پیمانے پر حراست میں لینے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی طرح تبتی اور بودھ مذہب کے پیروکاروں، فالون گوم اور عیسائیوں پر بھی جبر جاری ہے۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ ہم اس پر آواز اٹھاتے رہیں گے کیونکہ ہمیں اس پر بات کرنی چاہئیے۔ ان کاکہنا تھا کہ امریکہ پابندیوں کے معاملے پر، متاثرین کیلئے انصاف کی فراہمی اور جوابدہی کے معاملے پر جہاں تک ممکن ہوا ، اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔
ایران
انہوں نے کہا کہ ایران میں مذہبی اقلیتوں کو مسلسل ڈرایا دھمکایا جارہا ہے ، انہیں ہراساں کیا جارہا ہے اور بہائی، مسیحی، یہودی، زرتشت، سنی اور صوفی مسلمان ارکان کو گرفتار کیا جارہا ہے۔
روس
اُن کا کہنا تھا کہ روس میں حکام یہوواہ وٹنس نامی فرقے کے مسیحیوں کو ہراساں کرتے رہتے ہیں۔ انہیں گرفتار کیا جاتا ہے اور ان کی املاک پر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس میں مسلمانوں پر بھی ظلم کیا جاتا ہے اور ان پر مبینہ شدت پسند ہونے کا الزام لگا کر تنگ کیا جاتا ہے۔
سعودی عرب
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب ، دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کوئی گرجا گھر نہیں ہے، حالانکہ وہاں پر دس لاکھ سے زیادہ مسیحی رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا سعودی عرب میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے جیسے کہ رائف بداوی، جنہیں سن دوہزار چودہ میں اپنے نظریات کے اظہار پر دس سال قید اور سو کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی۔
برما
بلنکن نے برما یعنی میانمار کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہاں فوجی بغاوت کے لیڈر روہنگیا مسلمان آبادی کی نسل کشی اوران پر مظالم کے ذمہ داروں میں شامل ہیں۔
یہود اور مسلمان مخالف نظریات
ان کا کہاکہ ہم امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں یہود مخالفت میں اضافہ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک خطرناک نظریہ ہے جو تاریخی طور پر تشدد سے ہوتا رہا ہے ۔ ہمیں اس کی شدت سے مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے ملکوں میں مسلمان مخالف نفرت بھی وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اور یہ امریکہ کے ساتھ ساتھ یورپ کیلئے بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کام کرنا چاہئیے کہ ہر پس منظر اور تمام عقائد کے لوگوں سے برابری، وقار اور احترام کا سلوک روا رکھا جائے۔