|
جمعے کے روز سینکڑوں سوگوار اسرئیل کے جنوبی شہر راحت میں 23 سالہ اسرائیلی یرغمال حمزہ الزیادنی کی تدفین کے لیے اکٹھے ہوئے جس کی باقیات اسرائیلی فوجیوں نے اس ہفتے کے شروع میں غزہ سے برآمد کی تھیں۔
تدفین, فوج کی جانب سے باقیات کی شناخت کی تصدیق کے بعد ہوئی۔ حمزہ کی باقیات بھی اس کے والد 53 سالہ یوسف الزیادنی کے ساتھ غزہ کی ایک سرنگ سے ملی تھیں جسے جمعرات کو شناخت ہونے کے بعد سپرد خاک کیا گیا۔
اسرائیلی ڈیفینس فورسز، آئی ڈی ایف نے کہا ہے کہ ان دونوں کو اس وقت ایک ساتھ یرغمال بنایا گیا تھا جب حماس کے عسکریت پسندوں نے سات اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر دھاوا بولا تھا۔
یوسف الزیادنی کے ساتھ اس کے تین بچوں کو بھی یرغمال بنا کے عسکریت پسند اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔ جن میں دو نو عمر بچوں کو نومبر 2023 میں ایک عارضی جنگ بندی کے دوران قیدیوں کے تبادلے میں رہا کر دیا گیا تھا۔
اسرائیلی ڈیفینس فورسز کا کہنا ہے کہ دونوں لاشیں رفح کے علاقے میں ایک زیرزمین سرنگ سے ملی تھیں ۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کی ہلاکت کس طرح ہوئی تھی، لیکن خبر رساں ادارے رائٹرز نے ایک فوجی افسر کے حوالےسے رپورٹ دی کہ ان دونوں کی اموات حالیہ عرصے میں نہیں ہوئی تھیں۔
غزہ جنگ بندی کی کوششیں جاری
مصر، قطر اور امریکہ کی جانب سے یرغمالوں کی رہائی اور فلسطینی شہریوں تک امداد کی ترسیل بڑھانے کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے حصول کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے بدھ کو کہا تھا کہ ایک معاہدہ طے پانے کے قریب ہے اور یہ کہ انہیں امید ہے کہ 20 جنوری کو صدر بائیڈن کی مدت صدارت کے خاتمے سے قبل کوئی معاہدہ طے پا جائے گا۔
نیتن یاہو کی قطر مذاکرات جاری رکھنے کی ہدایت
اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے جمعے کے روز غزہ جنگ بندی پر گفت و شنید کے لیے سیکیورٹی کے عہدے داروں سے ملاقات کی۔ یہ بات ایک اسرائیلی فوجی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتائی۔
وزیر اعظم اور سیکیورٹی عہدے داروں نے مذاکرات کاروں سے تازہ ترین معلومات حاصل کیں اور انہیں قطر میں بات چیت جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ یہ بات ایک عہدے دار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتائی کیوں کہ اسے خفیہ سفارتی معاملے پر بات کرنے کا اختیار نہیں تھا۔
قطر مصر اور امریکہ ان بالواسطہ مذاکرات میں ثالثی کر رہے ہیں جو پندرہ ماہ کی جنگ میں بار بار تعطل کا شکار ہوئے ہیں۔ غزہ سے اس ہفتے دو یرغمالوں کی باقیات برآمد ہونے کے بعد نیتن یاہو پر متاثرہ خاندانوں اور دوسروں کی طرف سے اس بارے میں دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ باقی ماندہ یرغمالوں کو گھر واپس لانے کے لیے کوئی معاہدہ طے کریں۔
امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور دیگر حماس کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دے چکے ہیں۔
امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈٹرمپ نے حال ہی میں اپنی خارجہ پالیسی کے بارے میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اگر یرغمال میرے منصب سنبھالنے تک واپس نہیں آئے تو مشرق وسطیٰ میں قیامت برپا ہو جائے گی اور یہ حماس کے لیے اچھا نہیں ہو گا، اور سچ تو یہ ہے کہ یہ کسی کے لیے بھی اچھا نہیں ہو گا۔
ٹرمپ کی نیوز کانفرنس کے موقع پر ان کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی بھی حالیہ اعلیٰ سطحی بات چیت کے بارے میں نامہ نگاروں کو بریف کرنے کے لیے پوڈیم پر موجود تھے۔
ایلچی اسٹیو وٹکاف نے بتایا کہ ان کی ٹیم ایک معاہدے کے حصول کے قریب ہے اور وہ آنے والے دنوں میں واپس خطے میں جائیں گے۔ ٹرمپ نے اپنے ایلچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، میں آپ کے مذاکرات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔
غزہ جنگ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے سے شروع ہوئی تھی جس میں عسکریت پسندو ں نے 1200 لوگوں کو ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنا لیا تھا۔ ابھی تک تقریباً 100 یرغما ل غزہ میں باقی ہیں جن میں سے کم از کم ایک تہائی کے بارےمیں خیال ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی میں اب تک 46000 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ادارہ اپنی گنتی میں جنگجوؤں اور عام شہریوں میں فرق نہیں کرتا لیکن اس کا کہنا ہے کہ نصف سے زیادہ ہلاکتیں عورتوں اور بچوں کی ہیں۔
وزارت نے کہا ہے کہ ہلاک ہونے کے علاوہ 1،09300 لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔
اس رپورٹ کی کچھ معلومات اے پی سے لی گئی ہیں۔
فورم