|
ویب ڈیسک — غزہ کی عسکری تنظیم حماس نے اسرائیل پر اکتوبر 2023 کے حملے میں یرغمال بنائے گئے 34 افراد کو رہا کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق حماس کے ایک عہدیدار نے اتوار کو کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ممکنہ معاہدے کے پہلے فیز میں حماس 34 یرغمالوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔
اسرائیل بھی کہہ چکا ہے کہ جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے قطر میں بلا واسطہ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔
قطر، مصر اور امریکہ کئی ماہ سے ان مذاکرات میں ثالثی کرتے ہوئے فریقین میں معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حالیہ کوشش ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب امریکہ میں انتظامیہ تبدیل ہونے والی ہے اور 20 جنوری کو نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ حلف لے کر صدارت کا عہدہ سنبھال لیں گے۔
ایک جانب قطر میں مذاکرات ہو رہے ہیں تو دوسری جانب غزہ میں لڑائی بھی جاری ہے۔ '’اے ایف پی' کے مطابق غزہ میں موجود طبی رضاکاروں کا کہنا تھا کہ اتوار کو اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں میں مزید 23 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
سات اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی لڑائی کے ایک سال تین ماہ میں صرف ایک بار نومبر 2023 میں چند دن کے لیے عارضی جنگ بندی ہوئی تھی۔ اس ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی میں حماس نے 80 یرغمالوں کو رہا کیا تھا جب کہ معاہدے کے تحت اسرائیل کی جیلوں میں قید 240 فلسطینیوں کو رہائی ملی تھی۔
'اے ایف پی' کے مطابق حماس کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط بتایا کہ اسرائیل ایک فہرست فراہم کی ہے جس میں سے حماس نے 34 یرغمالوں کو رہا کرنے کی حامی بھری ہے۔ یہ یرغمالی معاہدے کے پہلے فیز میں قیدیوں کے تبادلے کے طور پر رہا کیے جائیں گے۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس نے ابھی تک یرغمالوں کی وہ فہرست فراہم نہیں کی جن کو معاہدے کے تحت ممکنہ طور پر رہا کیا جائے گا۔
حماس کے عہدیدار نے کہا ہے کہ ابتدائی طور پر قیدیوں کے تبادلے میں خواتین، بچوں، بزرگ افراد اور غزہ میں یرغمال بیماروں کو شامل کیا جائے گا۔
ان کے بقول حماس کو ان یرغمالوں کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے وقت درکار ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ حماس حامی بھر چکی ہے کہ وہ 34 یرغمالوں کو واپس بھیجے گی چاہے وہ زندہ ہوں یا ان کی موت ہو چکی ہو۔ تاہم حماس کو ایک ہفتہ درکار ہوگا تاکہ وہ ان یرغمالوں کو تحویل میں رکھنے والے افراد سے رابطہ کر سکے اور اس بات کی نشان دہی کر سکے کی کون زندہ ہے اور کس کی موت ہو چکی ہے۔
حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر غیر متوقع حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں حماس نے لگ بھگ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے اب بھی لگ بھگ 100 یرغمالی غزہ میں موجود ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان یرغمالوں میں سے 34 کی موت ہو چکی ہے۔
حماس کے عہدیدار کے حالیہ بیان سے قبل قطر میں جاری مذاکرات کے حوالے سے کسی بھی قسم کی تفصیلات سامنے نہیں آ رہی تھیں۔
اسرائیل کے وزیرِ دفار یسرائیل کاٹز نے ہفتے کو یرغمالوں کے اہلِ خانہ سے ملاقات میں کہا تھا کہ یرغمالوں کی بازیابی کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔ اسرائیل کا ایک وفد جمعے کو اس حوالے سے مذاکرات کے لیے قطر بھیجا گیا ہے۔
واضح رہے کہ حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر دہشت گرد حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ حماس نے ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر غزہ منتقل کر دیا تھا۔
اس حملے کے فوری بعد اسرائیل میں بنجمن نیتن یاہو کی حکومت نے حماس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا تھا۔
اس جنگ کے دوران سال سے زیادہ عرصے میں غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کے مطابق ساڑھے 45 ہزار سے زائد فلسیطینیوں کی موت ہو چکی ہے جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔
اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔