ایک مسلح فلسطینی کے ہاتھوں دو اسرائیلی آباد کاروں کی ہلاکت کے بعد اتوار کو دیر گئے شمالی مغربی کنارے میں متعدد اسرائیلی آباد کاروں نے پرتشدد ہنگامہ آرائی کی، جس میں درجنوں کاروں اور گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ فلسطینی طبی ماہرین نے بتایا کہ ایک شخص ہلاک اور چار شدید زخمی ہوئے ہیں جو کہ عشروں میں آبادکاروں کی طرف سے تشدد کا بدترین حملہ تھا۔
اس سے پہلے اردن نے اعلان کیا تھا کہ فلسطینی حکام نے ایک سال سے جاری تشدد کی لہر کوختم کرنے کا عزم کیا ہے۔لیکن اسرائیلی ہلاکت خیز فائرنگ نےاس اعلان پر شکوک و شبہات کا پردہ ڈال دیا ۔فلسطینی میڈیا کا کہنا ہے کہ تقریباً 30 گھروں اور کاروں کو نذر آتش کیا گیا۔
فلسطینی وزارت صحت نے اتوار کو دیر گئے کہا کہ اسرائیلی فائرنگ سے ایک 37 سالہ فلسطینی ہلاک ہو گیا۔ فلسطینی ریڈ کریسنٹ میڈیکل سروس نے بتایا کہ دو افراد کو گولی مار کر زخمی کیا گیا، تیسرےپر چاقو سے وار کیا گیا اور چوتھے کو لوہے کی پیٹی سے مارا گیا۔ تقریباً 95 افراد کا آنسو گیس کی وجہ سے زخمی ہونے پرعلاج کیا جا رہا ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیلی افواج کی حفاظت میں آباد کاروں کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردکارروائیوں کی مذمت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اسرائیلی حکومت کو مکمل طور پر ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
یوروپی یونین نے کہا کہ ہوارا میں ہونے والے آج کے تشدد پر تشویش ہے اور کہا کہ تشدد کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کو روکنے کے لیے تمام اطراف کے حکام کو مداخلت کرنی چاہیے۔
اسرائیل میں برطانیہ کے سفیر نیل ویگن نے کہا کہ اسرائیل کو تشدد کرنے والے آباد کاروں سے نمٹنا چاہیے اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔
شام کے نیوز شوز پر دکھائی جانے والی تشدد کی ویڈیوز کے بعد، وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے پرسکون رہنے کی اپیل کی اور تشدد کے خلاف چوکس رہنے پر زور دیا۔ نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ میں کہتا ہوں کہ جب خون میں جوش ہو اور غصہ عروج پر ہو تو قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ہرزل حلوی جائے وقوعہ پر پہنچ گئے ہیں اور فورسز امن بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
یہ ہنگامہ آرائی ایک ایسے وقت میں ہوئی جب اردن کی حکومت نے اتوار کو بحیرہ احمر کے سیاحتی مقام عقبہ میں مذاکرات کا اہتمام کیا اور بتایا کہ فریقین نے کشیدگی میں کمی کے لیے اقدامات پر اتفاق کیا ہے اور مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان سے قبل اگلے ماہ دوبارہ ملاقات کا وعدہ کیا ہے
اردنی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ فریقین نے بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے اور مزید تشدد کو روکنے کے لیے عزم ظاہر کیا ۔
تقریباً ایک سال کی لڑائی کے بعد جس میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں 200 سے زیادہ فلسطینی اور 40 سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہو ئے تھے ، اردن کے اعلان نے امن کے لیے ، امید کی ایک کرن پیدا کی تھی لیکن موجودہ صورت حال نے فوری طور پر ان وعدوں کو شک میں ڈال دیا۔
اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے، جن کے فلسطینیوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، مذاکرات کی قیادت کی، جب کہ مصر، ایک اور ثالث اور امریکہ نے بھی شرکت کی۔
واشنگٹن میں، امریکی قومی سلامتی کے مشیر، جیک سلیوان نے ملاقات کا خیرمقدم کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ میٹنگ ایک نقطہ آغاز تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ اس پر عمل درآمد اہم ہوگا۔
فریقین کے درمیان یہ ایک غیر معمولی اعلیٰ سطحی ملاقات تھی، جس میں بحران کی شدت اور مارچ کے آخر میں رمضان کے قریب آتے ہی تشدد میں اضافے کے خدشات کو ظاہر کیا گیا تھا۔
غزہ میں، ایک اسلامی عسکریت پسند گروپ حماس نے جو اسرائیل کے خلاف عزائم رکھتا ہے، اتوار کے اجلاس پر تنقید کی اور فائرنگ کو مغربی کنارے میں اسرائیلی دراندازی کا ایک فطری ردعمل قرار دیا۔
اسرائیل نے 2005 میں غزہ سے انخلا کیاتھا جب سے اس علاقے کا کنٹرول حماس کے پاس ہے ،لیکن اسرائیل اور مصر نے اس علاقے کی ناکہ بندی برقرار رکھی ہے۔
خبر کا کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے