|
خبررساں ادارے رائٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ کچھ اسرائیلی فوجی سوشل میڈیا پر غزہ میں فلسطینوں کے گھروں سے ملنے والے خواتین کے زیرجامے اور ملبوسات کی تصویریں اور ویڈیوز اس انداز میں پوسٹ کر رہے جس سے ان کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہو۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی جنگ کا یہ غیر مناسب اور غیر شائستہ بصری ریکارڈ ایک ایسے موقع پر بنایا جا رہا ہے جب اس خطے میں منڈلاتے ہوئے قحط کے باعث بین الاقوامی برادری کی جانب سے اسرائیل پر تنقید میں شدت آ رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والی ایک ویڈیو میں ایک اسرائیلی فوجی غزہ میںکرسی پر بیٹھا ہوا مسکرا رہا ہے۔ اس کے ایک ہاتھ میں بندوق ہے اور دوسرے ہاتھ سے وہ خواتین کے ایک سفید ریشمی انڈرویئر کولہرا رہا ہے۔
رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک اور ویڈیو میں ایک اسرائیلی فوجی ایک ٹینک کے اوپر بیٹھا ہے اور اس نے ایک خاتون کا پتلا اٹھایا ہوا ہے، جس کے جسم پر صرف ایک سیاہ بکنی ہے۔ ویڈیو میں فوجی کہہ رہا ہے کہ مجھے ایک خوبصورت بیوی مل گئی ہے۔
خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ دو ویڈیوز، اسرائیلی فوجیوں کی پوسٹ کردہ ان درجنوں ویڈیوز اور تصویروں میں شامل ہیں جن میں انہوں نے غزہ کی خواتین کے زیرجامے، خواتین کے ملبوسات کی دکانوں سے اٹھائے گئے نسوانی پتلے، اور کئی ویڈیوز میں دونوں کو ایک ساتھ دکھایا ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ ویڈیوز ہزاروں بار دیکھی جا چکی ہیں اور ایک ویڈیو کو، جسے یونس الطراوی نے دوبارہ پوسٹ کیا ہے، تقریباً پانچ لاکھ بار دیکھا جا چکا ہے۔الطراوی کا کہنا ہے کہ وہ ایک فلسطینی رپورٹر ہے۔
مختصر پیغام رسانی کے پلیٹ فارم ایکس پریونس الطراوی کے فالورز کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ انہوں نے یہ ویڈیوز 23 فروری اور یکم مارچ کے درمیان دوبارہ پوسٹ کیں تھیں اور ان کے ساتھ اسرائیل ڈیفنس فورس( آئی ڈی ایف) کے فوجیوں کی پوسٹ کا لنک بھی دیا ہے۔
رائٹرز کا کہنا ہے کہ اس نے انسٹاگرام اور یوٹیوب پر ان ویڈیوز کی آزادانہ تصدیق کی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی ترجمان راوینا شمداسانی نے ان ویڈیوز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی تصویریں پوسٹ کرنا فلسطینی اور تمام خواتین کی تذلیل کرنا ہے۔
رائٹرز نے یویٹوب یا انسٹاگرام پر شائع ہونے والی آٹھ تصدیق شدہ پوسٹس کی تفصیلات اسرائیل ڈیفنس فورس کو اس درخواست کے ساتھ بھیجیں کہ وہ اپنی رائے دے۔
اس کے جواب میں آئی ڈی ایف کے ایک ترجمان نے ایک بیان بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئی ڈی ایف ان واقعات اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پرایسی ویڈیوز اپ لوڈ کیے جانے کی، جن سے اسرائیل ڈیفنس فورس سے متوقع نظم وضبط اور اقدار سے انحراف ہوتا ہو، تحقیقات کر رہا ہے۔
اسرائیلی فوج کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جن معاملات میں فوجداری جرم ہونے کا شبہ ہو، اور جو تحقیقات شروع کرنے کا جواز فراہم کرے، اس صورت میں ملٹری پولیس کی جانب سے تحقیقات شروع کی جائے گی۔
بیان میں کہا ہے کہ یہ واضح ہونا چاہیے کہ ایسے معاملات میں، جن کی جانچ پرکھ کے بعد یہ نتیجہ نکلے کہ ویڈیو میں فوجیوں کا اظہار یا برتاؤ غیرمناسب ہے تو اس معاملے میں اسی کے مطابق نمٹا جاتا ہے۔
رائٹرز کا کہنا ہے کہ اسرائیل ڈیفنس فورس نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ آیا اس کے بیان میں ان ویڈیوز کا حوالہ ہے جن کا ذکر رائٹرز نے کیا تھا اور یا یہ کہ آیا ان واقعات میں ملوث کسی فوجی کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی گئی ہے۔
رائٹرز نے جن اسرائیلی فوجیوں کو شناخت کیا تھا، انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے بھیجی گئی تبصرے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی کئی ایسی ویڈیوز کا ذکر کیا ہے جو اخلاق باختہ اور قابل اعتراض ہیں۔
یوٹیوب نے کہا ہے کہ اس نےاپنے پلیٹ فارم سے ایک ویڈیو ہٹا دی ہے جس کے متعلق رائٹرز نے اسے لکھا تھا، کیونکہ مذکورہ ویڈیو، یوٹیوب کی ہراسانی سے متعلق پالیسی سے متصادم تھی۔
ایسی پوسٹس جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 27 کی خلاف وزری ہیں
کینیڈا کی کوئنز یونیورسٹی کے قانون کے شعبے اسسٹنٹ پروفیسر ارڈی امسیز کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی یہ پوسٹس جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 27 کی خلاف وزری ہیں جو زمانہ جنگ میں شہریوں سے برتاؤ سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 27 میں کہا گیا ہے کہ شہری اپنی عزت، خاندانی حقوق، آداب اور رسم و رواج کے احترام کے حق دار ہیں اور انہیں توہین سے تحفظ حاصل ہونا چاہیے اور خواتین کی عزت و توقیر کو بطور خاص تحفظ ملنا چاہیے۔
سوشل میڈیا پر یہ ویڈیوز ایک ایسے وقت میں شائع ہوئی ہیں جب حماس اور اسرائیل دونوں پر سنگین جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کی ایک ٹیم نے مارچ میں جاری ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ حماس کے اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملے کے دوران متعدد مقامات پر جنسی تشدد، جنسی زیادتی اور اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعات پر یقین کرنے کی معقول بنیادیں موجود ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایسی قابل یقین معلومات موجود ہیں کہ غزہ لے جائے گئے کچھ یرغمالوں پر جنسی تشدد کیا گیا جو اب بھی جاری ہے۔
دونوں فریق جنسی تشدد سے منسلک الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
(اس آرٹیکل کے لیے معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)
فورم