رسائی کے لنکس

دو ہفتوں سے سمندر میں پھنسے چھ پاکستانی آخر واپسی کو تیار کیوں نہیں؟


بحیرۂ احمر کے شمال مشرق میں 13 روز سے بحری جہاز پر کھلے سمندر میں پھنسے چھ پاکستانیوں کی امید اس وقت بر آئی جب پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن( پی این ایس سی) کے ایک آئل ٹینکر جہاز 'خیرپور' نے انہیں کھانے پینے کی اشیا اور کچھ ضروری سامان 23 مارچ کو پہنچایا۔

دوسری جانب پاکستانی عملے کے اکثر افراد کی صحت اور ٹگ بوٹ کا انجن خراب ہونے کے باوجود عملہ 'مہر' نامی بحری جہاز کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔ کیوں کہ ان کے مطابق ان کی آٹھ ماہ کی تنخواہیں جہاز کے مالک کے پاس پھنسی ہوئی ہیں اور جہاز کو یوں چھوڑ کر جانے سے انہیں اس رقم اور ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں۔

پاکستان کی میری ٹائم افیئرز کی وزارت کے مطابق بحیرۂ احمر میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی مدد کے لیے سعودی حکام سے اجازت کے بعد انہیں 30 روز تک کا راشن، پانی اور طبی امداد فراہم کی گئی کیوں کہ اس وقت یہ جہاز سعودی پانیوں میں ہے۔

اس جہاز کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا تھا؟

تنزانیہ کے جھنڈے والی ٹگ بوٹ 'مہر' کے ماسٹر محمد علی کے مطابق وہ 12 فروری کو اومان کی سلالہ بندرگاہ سے مصر کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ یمن کی بندرگاہ عدن کے قریب ان کی ٹگ بوٹ کی اسٹیرنگ موٹر جل گئی، لیکن انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا اور بوٹ کے رڈر کو چین بلاکس کی مدد سے چلا رہے تھے۔

لیکن سوڈان کی بندرگاہ پہنچنے کے قریب ہی ان کی ٹگ بوٹ کے دونوں انجنز نے کام کرنا چھوڑ دیا اور وہ 10 مارچ سے مکمل طور پر سمندری لہروں کے رحم و کرم پر تھے۔

'پی این ایس سی' کے ترجمان کے مطابق ٹگ ماسٹر اور چیف انجینئر کی صحت کافی خراب تھی اور انہوں نے معدے کی خرابی اور جسم میں تھکاوٹ کے باعث درد کی شکایت کی تھی۔ عملے کے پاس زندہ رہنے کے لیے پانی، غذا اور ادویات کی بھی قلت تھی۔

دوسری جانب جہاز کے عملے میں سے ایک شخص دلدار احمد نے اپنے بیٹے اسد کو 19 مارچ کو بھیجے گئے پیغامات میں کہا کہ امداد سے قبل وہ صرف موجوں کے رحم و کرم پر تھے اور انہیں خدشہ تھا کہ ان کا جہاز کسی بھی وقت تیز سمندری لہروں سے اُلٹ نہ جائے۔

اپنے پیغام میں اُن کا کہنا تھا کہ انہیں اپنی جان جانے کا بھی سخت خطرہ تھا اور رابطے کا واحد ذریعہ صرف سیٹلائٹ فون ہی ہے۔ جس کے ذریعے انہوں نے ڈسٹریس کال بھی دی، لیکن ان کے اردگرد سے گزرنے والے دیگر بحری جہازوں کے عملے نے بھی ان کی کوئی مدد نہیں کی۔

اسد نے بتایا کہ معاملہ سامنے آنے کے بعد قاہرہ، جدہ اور خرطوم میں موجود پاکستانی سفارت خانوں نے فوری طور پر سیٹلائٹ فون پر عملے سے رابطے استوار کیے جب کہ فوری امداد کے لیے جہاز کا روٹ بھی تبدیل کروایا گیا جس پر وہ حکومت کے شکر گزار ہیں۔

اسد نے وائس آف امریکہ کو مزید بتایا کہ ان کے والد اور عملے کے دیگر افراد ستمبر میں دبئی اور پھر وہاں سے ایران کی بندرگاہ بندر عباس گئے تھے جس کے بعد وہ اومان گئے اور وہاں سے اب مصر کے لیے روانہ ہوئے تھے۔

چونتیس سال قبل بنائے گئے 'مہر' جہاز میں اس وقت جو پاکستانی سوار ہیں ان میں دلدار احمد اور ماسٹر محمد علی کے علاوہ محمد شفیق، عبدالسلام، عبدالغنی اور اسماعیل احمد شامل ہیں۔

متاثرین کا کہنا ہے کہ جہاز خراب ہونے کے باوجود کمپنی اور ایجنٹ دونوں ہی ان سے شروع میں رابطہ نہیں کررہے تھے۔ تاہم حکام کی جانب سے رابطہ کرنے پر اب جہاز کے مالک نے عملے کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ چند روز میں جہاز کی مرمت کا سامان بھیج رہے ہیں اور انہیں بھی ریسکیو کیا جا رہا ہے۔

'عملے کی بحفاظت واپسی یقینی بنائیں گے'

ادھر پاکستانی دفترِ خارجہ نے بھی کہا ہے کہ ان افراد کو بحفاظت ریسکیو کرنے کے لیے تمام ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

دوسری طرف پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے اہلِ خانہ کی جانب سے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ان کی صحت اس قابل نہیں کہ وہ زیادہ لمبے عرصے تک سمندر میں پھنسے رہیں۔ کیوں کہ ان میں سے ایک کے سوا تمام افراد کی عمریں 50 سال سے زیادہ ہیں اور وہ محنت مزدوری کے لیے اتنے لمبے عرصے تک سمندر میں ہوتے ہیں۔

انہوں نے حکام سے اپیل کی ہے کہ ان افراد کی بحفاظت واپسی کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG